آیات 42 - 44
 

وَ اِنۡ یُّکَذِّبُوۡکَ فَقَدۡ کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اگر لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے بھی تکذیب کی قوم نوح نے اور قوم عاد اور ثمود نے،

وَ قَوۡمُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ قَوۡمُ لُوۡطٍ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے،

وَّ اَصۡحٰبُ مَدۡیَنَ ۚ وَ کُذِّبَ مُوۡسٰی فَاَمۡلَیۡتُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ثُمَّ اَخَذۡتُہُمۡ ۚ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ﴿۴۴﴾

۴۴۔اور مدین والوں نے بھی، اور موسیٰ کی بھی تکذیب کی گئی ہے پس میں نے کفار کو پہلے مہلت دی پھر میں نے انہیں گرفت میں لے لیا پھر (دیکھ لو) میرا عذاب کیسا سخت ہے؟

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنۡ یُّکَذِّبُوۡکَ: تاریخ انبیاء علیہم السلام میں تکذیب کا عمل ہمیشہ رہا ہے۔ ہر تعمیر کے ساتھ تخریبی عناصر ساتھ ہوا کرتے ہیں۔ ہر اصلاح کے پہلو میں فسادی قوتیں فعال رہتی ہیں۔ ہر مثبت عمل کے سامنے ایک منفی رکاوٹ کھڑی رہتی ہے۔ ہر الٰہی تحریک کے مقابلے میں ایک شیطانی تحریک کھڑی ہو جاتی ہے۔

لہٰذا اے رسول! آپ کی اس الٰہی تحریک کے مقابلے میں شیطانی تحریک کا وجود کوئی انوکھی بات ہے نہ آپ کے اس ملکوتی پیغام کے مقابلے میں شیطانی وساوس نئی بات ہے۔

اس بات پر قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم، لوط، مدین والے اور موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب شاہد ہے۔

۲۔ فَاَمۡلَیۡتُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ: اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ ایسے تکذیبی عناصر کو مہلت دی جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا صبر دیکھا جاتا ہے۔ ظالم کو ڈھیل دی جاتی ہے۔ مظلوم کی آزمائش کی جاتی ہے۔ اس آزمائش کو وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا (۱۲یوسف: ۱۱۰) کی منزل تک لے جایا جاتا ہے۔

۳۔ ثُمَّ اَخَذۡتُہُمۡ: پھر ان تکذیبی عناصر کو گرفت میں لیا جاتا ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے تسلی ہے اور آخر میں کامیابی کی نوید بھی ہے۔

اہم نکات

۱۔ ہر خدائی تحریک کے مقابلے میں شیطانی تحریک ہوا کرتی ہے۔

۲۔ اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے اور مظلوم کو آزمائش میں ڈال کر کامیابی کے کنارے تک لے جاتا ہے۔


آیات 42 - 44