روزے کا فلسفہ


اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۴﴾

۱۸۴۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔

184۔ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ یعنی روزہ رکھنے میں خود تمہاری بہتری ہے۔ اس بہتری کو ہمارے علم کے ساتھ مربوط فرمایا۔ چنانچہ کل کی نسبت آج کا انسان روزے کے طبی، اخلاقی اور نفسیاتی فوائد کو بہتر سمجھ سکتا ہے۔

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ :گنتی کے چند دن، یعنی ماہ رمضان۔ کیونکہ بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ گنتی کے چند دن ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سال میں چند دن یعنی ایک ماہ کے روزے رکھنا کوئی پر مشقت کام نہیں ہے۔

روزے کا حکم بیان فرمانے کے بعد مسافر اور مریض کے لیے فرمایا کہ اگر وہ ان معدود ایام میں روزہ نہ رکھ سکیں تو اس مقدار کو دوسرے دنوں میں پورا کر سکتے ہیں کیونکہ مقررہ دنوں میں نہ سہی لیکن اصل روزہ تو ہر حال میں بجا لانا ہو گا۔

وَ اِنۡ یُّکَذِّبُوۡکَ فَقَدۡ کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اگر لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے بھی تکذیب کی قوم نوح نے اور قوم عاد اور ثمود نے،