آیت 46
 

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا: کیا یہ مشرکین اور تکذیبی عناصر زمین میں چل پھر کر گزشتہ امتوں کی سرگزشت کا مشاہدہ نہیں کرتے؟ اگر وہ ایسا کرتے تو تکذیب کاروں کا انجام دیکھتے اور اپنی عقل و فکر کی طرف رجوع کرتے۔

اگر وہ خود بطور استقلال اپنی عقل و فکر سے کام لینے کے اہل نہیں ہیں تو کسی ہادی و رہبر کی بات سمجھتے اور ناصح کی آواز سننے اور سمجھنے کی صلاحیت آ جاتی۔

۲۔ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ: یہ لوگ بے بصارت نہیں ہوں گے بلکہ بے بصیرت ہوں گے۔ ان کے قلب میں بینائی نہیں ہو گی۔ واضح رہے کہ بینائی اور تعقل کا قلب کی طرف اور پھر قلب کا سینہ کی طرف نسبت دینا ایک محاورہ ہے۔ ہم اپنے محاوروں میں عقل و فکر اور محبت و عداوت وغیرہ کی نسبت دل کی طرف دیتے ہیں۔ البتہ سائنس اور فلسفہ کے اعتبار سے یہ دماغ اور روح و نفس کا کام ہے۔ دل کا کام تو خون پمپ کرنا ہے۔ البتہ ایک نظریہ ہے کہ دل خود اپنی جگہ ایک شعور رکھتا ہے۔


آیت 46