اِرۡجِعُوۡۤا اِلٰۤی اَبِیۡکُمۡ فَقُوۡلُوۡا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّ ابۡنَکَ سَرَقَ ۚ وَ مَا شَہِدۡنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمۡنَا وَ مَا کُنَّا لِلۡغَیۡبِ حٰفِظِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ تم اپنے والد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: اے ہمارے ابا جان! آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہمیں جو علم ہوا اس کی ہم نے گواہی دے دی ہے اور غیب کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔

وَ سۡـَٔلِ الۡقَرۡیَۃَ الَّتِیۡ کُنَّا فِیۡہَا وَ الۡعِیۡرَ الَّتِیۡۤ اَقۡبَلۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ اور اس بستی (والوں) سے پوچھیے جس میں ہم ٹھہرے تھے اور اس قافلے سے پوچھیے جس میں ہم آئے ہیں اور (یقین جانیے) ہم بالکل سچے ہیں۔

قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۸۳﴾

۸۳۔(یعقوب نے )کہا: بلکہ تم نے خود اپنی طرف سے ایک بات بنائی ہے پس بہترین صبر کروں گا امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے، یقینا وہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

83۔ اس مرتبہ جو واقعہ پیش آیا ہے، اگرچہ اسے ان لوگوں نے خود نہیں بنایا تھا، لیکن یہ واقعہ اس زیادتی کا نتیجہ تھا جو ان لوگوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں کی تھی۔ اس لیے ان کو اس واقعہ کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہ تھی کہ بنیامین جیسا نیک سیرت فرزند چوری کا مرتکب ہو سکتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس جملے سے ”امید ہے اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے“ معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں، بلکہ یہ بھی اشارہ دیا کہ یوسف، علیہ السلام بنیامین اور بڑا لڑکا سب ایک ساتھ واپس آنے والے ہیں اور یوسف علیہ السلام کا خواب پورا ہونے والا ہے۔

وَ تَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰی عَلٰی یُوۡسُفَ وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور یعقوب نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف اور ان کی آنکھیں (روتے روتے) غم سے سفید پڑ گئیں اور وہ گھٹے جا رہے تھے۔

84۔ صبر جمیل کے باوجود یعقوب علیہ السلام کا نابینائی کی حد تک رونا بتاتا ہے کہ اظہارِ حزن اور گریہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہے۔ بقول بعض اہل قلم: یہ اشک فشانی، کمالات نبوت کے ذرا بھی منافی نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے بعض نافہموں نے لکھ دیا ہے، بلکہ یہ مزید شفقت اور رقت قلب کی علامت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام تو خیر جوان تھے، ہمارے حضور انور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر آنسوؤں کے ساتھ روئے ہیں، جو ابھی شیر خوار تھے۔(دریا بادی)

صبر کے منافی یہ ہے کہ اس فیصلہ کو پسند نہ کیا جائے اور جزع فزع اس لیے ہو کہ یہ فیصلہ کیوں ہوا۔

قَالُوۡا تَاللّٰہِ تَفۡتَؤُا تَذۡکُرُ یُوۡسُفَ حَتّٰی تَکُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡہٰلِکِیۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ (بیٹوں نے ) کہا: قسم بخدا ! یوسف کو برابر یاد کرتے کرتے آپ جان بلب ہو جائیں گے یا جان دے دیں گے۔

قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ یعقوب نے کہا : میں اپنا اضطراب اور غم صرف اللہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور اللہ کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

86۔ یہ شکوہ اگر کسی اور سے کروں تو بے صبری کہلائے۔ میں تو اس ذات کے سامنے اپنے دل کی حالت کھول کر بیان کرتا ہوں جس سے میری ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ عبد معبود کی بارگاہ میں جب اپنا احوال واقعی بیان کرتا ہے تو عین بندگی ہوتی ہے، یہی باتیں اگر غیر خدا سے کی جائیں تو بے صبری ہوتی ہے۔ اسی لیے حضرت یعقوب علیہ السلام فرماتے ہیں: میں تو اپنے غم و اندوہ کا اظہار کسی اور سے نہیں صرف اپنے رب سے کرتا ہوں، جس سے میری ساری امیدیں وابستہ ہیں اور اس سے میں مایوس نہیں ہوں، اس علم کی وجہ سے جو تمہارے پاس نہیں میرے پاس ہے۔

یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کے فیض سے مایوس نہ ہونا کیونکہ اللہ کے فیض سے تو صرف کافر لوگ مایوس ہوتے ہیں۔

87۔حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے یکجا موجود ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ساتھ یہ درس بھی دے رہے ہیں کہ مومن اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اللہ سے مایوس ہونے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کی قدرت و طاقت محدود ہے اور یہ کفر ہے۔

فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ مَسَّنَا وَ اَہۡلَنَا الضُّرُّ وَ جِئۡنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزۡجٰىۃٍ فَاَوۡفِ لَنَا الۡکَیۡلَ وَ تَصَدَّقۡ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَجۡزِی الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ پھر جب وہ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو کہنے لگے: اے عزیز ! ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت تکلیف میں ہیں اور ہم نہایت ناچیز پونجی لے کر آئے ہیں پس آپ ہمیں پورا غلہ دیجئے اور ہمیں خیرات (بھی) دیجئے، اللہ خیرات دینے والوں کو یقینا اجر عطا کرنے والا ہے۔

قَالَ ہَلۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا فَعَلۡتُمۡ بِیُوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ اِذۡ اَنۡتُمۡ جٰہِلُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔یوسف نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

89۔ اس قسم کا طرز خطاب ان لوگوں کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے جن کو ان کی غلط کاریوں کی سرزنش کرنا مقصود ہو۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ابتدائے کلام میں سرزنش کا لہجہ اختیار کیا لیکن معاً اس کی توجیہ بھی بیان فرمائی کہ یہ کام تم لوگوں نے نادانی میں کیا تھا۔

قَالُوۡۤا ءَاِنَّکَ لَاَنۡتَ یُوۡسُفُ ؕ قَالَ اَنَا یُوۡسُفُ وَ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۫ قَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ وہ کہنے لگے : کیا واقعی آپ یوسف ہیں ؟ کہا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے، اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

90۔ بھائیوں نے جب یوسف علیہ السلام کو پہچان لیا تو ان کے ذہنوں میں اپنی بدسلوکی اور یوسف علیہ السلام کے حسن سلوک کا تصور گھومنا شروع ہوا ہو گا اور ان دونوں سلوکوں میں موجود نمایاں فرق نے ان کو مزید شرمندہ کیا ہو گا۔ اس جگہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان عوامل کا ذکر کیا جن کی وجہ سے ان کو کامیابی حاصل ہوئی اور وہ ہیں صبر اور تقویٰ۔ چنانچہ قرآن کی دیگر متعدد آیات میں صبر و تقویٰ کو مشکلات سے نکلنے کا ذریعہ بتایا ہے۔