آیت 87
 

یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کے فیض سے مایوس نہ ہونا کیونکہ اللہ کے فیض سے تو صرف کافر لوگ مایوس ہوتے ہیں۔

تشریح کلمات

فَتَحَسَّسُوۡا:

( ح س س ) قوت حس سے کسی چیز تک پہنچنا۔

رَّوۡحِ اللّٰہِ:

( ر و ح ) بفتح ۔ رحمت اور رزق کے معنوں میں ہے۔ اصل میں یہ لفظ سانس کے معنوں میں آتا ہے اور راحت و سکون کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ: حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے ایک جگہ موجود ہونے کی طرف اجمالی اشارہ دیا اور بارگاہ خداوندی میں اپنے حزن و ملال کا اظہار کرنے کا فلسفہ بھی بیان فرمایا: مؤمن اللہ کے فیض و رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔

۱۔ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ: اللہ سے مایوس ہونے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کی قدرت و طاقت محدود ہے اور یہ کفر ہے۔ مثلاً یہ تصور کرنا کہ بیس درہم میں فروخت ہونے والے یوسف علیہ السلام کا اتنی مدت کے بعد ملنا ممکن نہیں ہے، مایوسی ہے اور یہ کہنا کہ اللہ کے لیے یہ کام ممکن نہیں ہے، کفر ہے، اللہ کی قوت و قدرت کی نفی ہے۔

اہم نکات

۱۔ جیسا کہ اللہ کی قدرت بے پایاں ہے اس کی رحمت بھی بے پایاں ہے۔ یہاں یاس کی گنجائش ہی نہیں ہے: اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیت 87