آیت 83
 

قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۸۳﴾

۸۳۔(یعقوب نے )کہا: بلکہ تم نے خود اپنی طرف سے ایک بات بنائی ہے پس بہترین صبر کروں گا امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے، یقینا وہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ: اس مرتبہ پیش آنے والے واقعہ کے ذمے دار اگرچہ یہ لوگ خود نہیں تھے لیکن یہ بھی اسی زیادتی کا نتیجہ تھا جو انہوں نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ کی تھی۔ اس لیے ان کو اس واقعہ کا بھی ذمے دار ٹھہرایا گیا اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے یہ بات بھی قابل باور نہ تھی کہ بنیامین جیسا نیک سیرت فرزند چوری کا مرتکب ہوا ہو۔

۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس جملے سے کہ امید ہے اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑکو علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں بلکہ یہ بھی اشارہ دیا کہ یوسف علیہ السلام، بنیامین، بڑا لڑکا، سب ایک ساتھ واپس آنے والے ہیں اور یوسف علیہ السلام کا خواب پورا ہونے والا ہے۔

۳۔ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ: علامہ طباطبائی ؒاس جگہ فرماتے ہیں : عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا دعائیہ جملہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آخر میں غفور رحیم جیسے جملے مذکور ہوتے۔ علیم الحکیم کی دعائیہ جملوں سے مناسبت نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ صبر کا آخری سرا کامیابی ہے: عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔

۲۔ اللہ کے فیصلے پر راضی ہو کر صبر کرنا، صبر جمیل ہے۔


آیت 83