آیات 81 - 82
 

اِرۡجِعُوۡۤا اِلٰۤی اَبِیۡکُمۡ فَقُوۡلُوۡا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّ ابۡنَکَ سَرَقَ ۚ وَ مَا شَہِدۡنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمۡنَا وَ مَا کُنَّا لِلۡغَیۡبِ حٰفِظِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ تم اپنے والد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: اے ہمارے ابا جان! آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہمیں جو علم ہوا اس کی ہم نے گواہی دے دی ہے اور غیب کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔

وَ سۡـَٔلِ الۡقَرۡیَۃَ الَّتِیۡ کُنَّا فِیۡہَا وَ الۡعِیۡرَ الَّتِیۡۤ اَقۡبَلۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ اور اس بستی (والوں) سے پوچھیے جس میں ہم ٹھہرے تھے اور اس قافلے سے پوچھیے جس میں ہم آئے ہیں اور (یقین جانیے) ہم بالکل سچے ہیں۔

تفسیر آیات

ہم نے چور کے بارے میں گواہی دی تھی کہ ہمارے ہاں اس کی سزا یہ ہے کہ چور کو غلام بنا لیا جائے۔ اس وقت ہمیں علم ہی نہ تھا کہ آپؑ کے بیٹے نے چوری کی ہے۔ چونکہ غیب تو ہم جانتے نہیں۔ اس سلسلے میں آپؑ اہل مصر سے پوچھ سکتے ہیں اور جس قافلے میں ہم تھے اس کے دیگر افراد سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ اولاد یعقوب کے قافلے میں دیگر افراد بھی شامل تھے اور یہ عین ممکن بھی ہے کہ قحط کی وجہ سے علاقے کے گوشہ و کنار سے لوگ غلہ خریدنے مصر پہنچ جاتے تھے اور اس وقت سفر کا طریقہ بھی یہی تھا کہ لوگ قافلہ بنا کر سفر کرتے تھے۔

اہم نکات

۱۔ ان لوگوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔ اب یہ لوگ سچ بولتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔


آیات 81 - 82