آیت 84
 

وَ تَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰی عَلٰی یُوۡسُفَ وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور یعقوب نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف اور ان کی آنکھیں (روتے روتے) غم سے سفید پڑ گئیں اور وہ گھٹے جا رہے تھے۔

تفسیر آیات

حضرت یعقوب علیہ السلام نے غم فراق میں روتے روتے آنکھیں نابینا کر دیں لیکن شدت غم کے باوجود اللہ کے اس فیصلے کو ناپسند نہیں کیا۔ راضی برضا رہے۔ یہاں سے ایک نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ اظہار حزن اور گریہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہے اور بقول بعض اہل قلم یہ اشک فشانی کمالات نبوت کے ذرا بھی منافی نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے بعض نافہموں نے لکھ دیا ہے بلکہ اور زیادہ شفقت اور رقت قلب کی علامت ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام تو خیر جواں تھے ہمارے حضور انور ؐ تو اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر آنسوؤں کے ساتھ روئے ہیں جو ابھی شیر خوار ہی تھے۔ (تفسیر دریابادی اسی آیت کے ذیل میں )

لہٰذا شدت غم سے اظہار حزن اور گریہ کرنا ایک طبعی امر ہے، صبر کے منافی نہیں ہے جیسا کہ راہ خدا میں زخم کھا کر شدت درد سے کراہنا صبر کے منافی نہیں بلکہ طبیعی امر ہے۔ صبر کے منافی یہ ہے کہ اس فیصلے کو پسند نہ کیا جائے اور جزع فزع اس لیے ہو کہ یہ فیصلہ کیوں رونما ہوا۔

رسول اللہؐ سے روایت ہے:

تَدْمَعُ الْعَیْنُ وَ یَحْزَنُ الْقَلْبُ وَ لَا نَقُولُ مَا یُسْخِطُ الرَّبَّ وَ اَنَّا بِکَ یَا اِبْرَاھِیمُ لَمَحْزُونُونَ ۔۔۔۔ ( الکافی ۳: ۲۶۲)

آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہوتا ہے لیکن ہم اپنے رب کی مرضی کے خلاف لب نہیں کھولتے۔ ابراہیم تیری جدائی پر غمگین ہوں۔

اہم نکات

۱۔ مصیبت کے موقع پر اظہار حزن اور گریہ کرنا رقت قلب کی علامت ہے: وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ ۔۔۔۔

۲۔ اس فیصلے کو پسند کرنا صبر و حوصلے کی علامت ہے: فَہُوَ کَظِیۡمٌ ۔۔۔۔


آیت 84