آیات 85 - 86
 

قَالُوۡا تَاللّٰہِ تَفۡتَؤُا تَذۡکُرُ یُوۡسُفَ حَتّٰی تَکُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡہٰلِکِیۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ (بیٹوں نے ) کہا: قسم بخدا ! یوسف کو برابر یاد کرتے کرتے آپ جان بلب ہو جائیں گے یا جان دے دیں گے۔

قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ یعقوب نے کہا : میں اپنا اضطراب اور غم صرف اللہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور اللہ کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

تشریح کلمات

حرضًا:

( ح ر ض ) الحرض اس چیز کو کہتے ہیں جو نکمی ہو جائے اور درخوراعتنا نہ رہے۔ اس لیے جو چیز قریب بہ ہلاکت ہو جائے اسے حرض کہا جاتا ہے۔

اَشۡکُوۡا:

( ش ک و ) الشکایۃ کے معنی اظہار غم کے ہیں۔ اصل میں شکوۃ یعنی چھوٹے مشکیزہ کو کھولنے اور اس کے اندر کی چیز کو ظاہر کرنے کے معنوں میں ہے۔ لہٰذا شکایت کا مطلب دل کی بات کو ظاہر کر دینا ہے۔

بَثِّیۡ:

( ب ث ث ) البث اصل میں یہ لفظ کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنے کے معنوں میں ہے۔ نفس کے سخت ترین غم یا بھید کو بث النفس کہا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ: حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزندوں کی طرف سے ہونے والی سرزنش کا پیغمبرانہ جواب دے رہے ہیں : میری معروض اور شکوہ اپنے اللہ سے ہے جس کا مجھے کوئی ملال نہیں ہے۔ عبد، معبود کی بارگاہ میں جب اپنا احوال واقعی بیان کرتا ہے، دل کی حالت زار کا اظہار کرتا ہے تو یہ عین بندگی ہے۔ یہی باتیں اگر غیر خدا سے کی جائیں تو بے صبری ہے۔ اسی لیے حضرت یعقوب علیہ السلام فرماتے ہیں : میں اپنے غم و اندوہ کا اظہار کسی اور سے نہیں، صرف اپنے رب سے کرتا ہوں جس سے میری ساری امیدیں وابستہ ہیں اور اس سے میں مایوس نہیں ہوں ، اس علم کی وجہ سے جو تمہارے پاس نہیں ، میرے پاس ہے۔

۲۔ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ: میں یوسف علیہ السلام یا اللہ کی رحمت کے بارے میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی بارگاہ میں اپنے حزن و ملال کا اظہار کرنا عالمانہ بندگی ہے: وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیات 85 - 86