وَ مَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّ مَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّ لَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ وَ مَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرَ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور (اے نبی) آپ جس حال میں ہوتے ہیں اور آپ قرآن میں سے اللہ کی طرف سے جو تلاوت کر رہے ہوتے ہیں اور تم لوگ جو عمل بھی کرتے ہو دوران مصروفیت ہم تم پر ناظر ہیں اور زمین اور آسمان کی ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾

۶۲۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

62۔ اولیاء اللہ کے دل میں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں آداب زندگی میں خلل نہ آئے۔ یہ خوف ولی اللہ کو ہر خوف سے نجات دلاتا ہے۔ وہ رنجیدہ و غمگین نہیں ہوتے، کیونکہ غمگین وہ ہوتا ہے جس نے کسی متاع عزیز کو کھویا ہو۔ ولی اللّٰہ کا نعرہ یہ ہے: ما ذا وجد من فقدک و ما الذی فقد من وجدک ۔ جس نے تجھے کھویا اس نے کیا پایا اور جس نے تجھے پایا اس نے کیا کھویا؟ (امام حسین علیہ السلام دعائے عرفہ۔ بحار الانوار 95: 226)

الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾

۶۳۔ جو ایمان لائے اور تقویٰ پر عمل کیا کرتے تھے۔

63۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے خاص بندوں کا ذکر فرماتا ہے تو پورے اہتمام کے ساتھ پہلے توجہ مبذول کراتا ہے اَلَاۤ سنو! آگاہ رہو۔ اس کے بعد مضمون شروع ہو جاتا ہے۔

ولی، الولاء و التوالی کے اصل معنی بقول راغب اصفہانی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کا اس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ آئے جو ان میں سے نہ ہو۔ آگے لکھتے ہیں: الولایۃ بکسر واو کے معنی نصرت اور الولایۃ بفتح الواو کے معنی کسی کام کے متولی ہونے کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے یہ وَلائۃ، وِلائۃ کی طرح ہے یعنی اس میں دو لغت ہیں اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں۔ اس تشریح کے مطابق ولی کا اصل معنی تولیت و حاکمیت ہے پھر بطور استعارہ دیگر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ رسول اور امام جب لوگوں کے ولی ہوتے ہیں تو تولیت و حاکمیت کے معنوں میں ہوتا ہے اور جب کوئی ہستی اللہ کی ولی بن جاتی ہے تو اس ولایت کے چند ایک آثار اس آیت میں بیان فرمائے ہیں۔

لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾

۶۴۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں آ سکتی، یہی بڑی کامیابی ہے۔

وَ لَا یَحۡزُنۡکَ قَوۡلُہُمۡ ۘ اِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ؕ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور (اے نبی) آپ کو ان (کافروں) کی باتیں رنجیدہ نہ کریں ساری بالادستی یقینا اللہ کے لیے ہے، وہ خوب سننے والا، دانا ہے۔

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا یَتَّبِعُ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ شُرَکَآءَ ؕ اِنۡ یَّـتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ آگاہ رہو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقینا سب اللہ کی ملکیت ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے بلکہ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ فقط اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

66۔ یہ استدلال اس طرح ہے کہ جب کل کائنات کی مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو غیر اللہ کے پاس کچھ نہیں رہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ہو جائیں۔ یہ مشرکین جن چیزوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ حقیقت کے مقابلے میں ظن و تخمین سے عبارت ہیں اور حقیقت سے عاری ایک موہوم چیز سے اپنی امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّسۡمَعُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں تم آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، بتحقیق سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

67۔ کائناتی نظام میں باہمی ربط اور وحدت سے خالقِ نظام کی وحدت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ رات کا وجود دن کے وجود کے ساتھ متصادم ہو بلکہ یہ دونوں ایک نظام کی تشکیل میں مددگار ہیں۔ قرآن توحید کے اثبات کے لیے دن اور رات کی حکمت پر زیادہ تکیہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہ زمین پر بسنے والوں کے لیے کائنات کے سب سے زیادہ واضح اور محسوس مظاہر قدرت ہیں۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ ہُوَ الۡغَنِیُّ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۭ بِہٰذَا ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ وہ کہتے ہیں: اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے اس کی ذات پاک ہے وہ بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کا ہے،تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ؟

68۔ اللہ کے لیے بیٹے کا تصور اللہ کی خالقیت اور مالکیت کے تصور کے منافی ہے اور نہایت بیہودہ اور سطحی ذہن کی ایجاد ہے کہ اللہ کو انسان پر قیاس کر کے یہ تصور قائم کیا جائے کہ جس طرح انسان اولاد کے ذریعے اپنے وجود کا تسلسل برقرار رکھنا چاہتا ہے اسی طرح اللہ بھی اپنے لیے فرزند پیدا کرتا ہے۔

قُلۡ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ ﴿ؕ۶۹﴾

۶۹۔ کہدیجئے: جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقینا فلاح نہیں پائیں گے۔

مَتَاعٌ فِی الدُّنۡیَا ثُمَّ اِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ نُذِیۡقُہُمُ الۡعَذَابَ الشَّدِیۡدَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ﴿٪۷۰﴾ ۞ؓ

۷۰۔ یہ دنیا کی عیش ہے پھر انہیں ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے پھر ہم انہیں شدید عذاب چکھائیں گے اس کفر کی پاداش میں جس کے وہ مرتکب رہے ہیں۔