آیت 68
 

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ ہُوَ الۡغَنِیُّ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۭ بِہٰذَا ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ وہ کہتے ہیں: اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے اس کی ذات پاک ہے وہ بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کا ہے،تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ؟

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا: اللہ کے لیے بیٹے کا تصور اللہ کی خالقیت اور مالکیت کے تصور کے منافی اور نہایت مبتذل اور سطحی ذہن کی ایجاد ہے۔ یہ نظریہ تعقل سے خالی صرف محسوس پرستی پر مبنی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کو انسان پر قیاس کر کے یہ رائے قائم کی کہ جس طرح انسان اپنے وجود کو کسی بیٹے کی صورت میں دوام دے سکتا ہے ورنہ وہ مقطوع النسل ہو جاتا ہے، اولاد نہ ہونے سے انسان محرومیت کا احساس کرتا ہے اور اپنے آپ کو بے دست و بازو اور بے یار و مدد گار خیال کرتا ہے، اللہ کو بھی ایک محتاج بے سہارا انسان کے مقام پر اتارا جوبہت بڑی جسارت ہے۔

۲۔ ہُوَ الۡغَنِیُّ: اس کی ذات اس قسم کی تمام باتوں سے بے نیاز ہے۔ اللہ کو فرزند کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی کوئی اس کا فرزند ہو سکتا ہے۔

۳۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ تمام کائنات کی نسبت مالک و مملوک کی ہے، نہ کہ فرزندی اور عزیز داری کی۔تثلیث کے عقیدے نے انسانیت کو جس المیے سے ساتھ دو چار کیا ہے، وہ یہی نسبت کی گمراہی ہے کہ عبد و معبود، خالق و مخلوق کی نسبت کی جگہ باپ اور بیٹے کی نسبت قائم کی، پھر چرچ کی طرف سے دین الٰہی کو خرافات کا مجموعہ بنایا اور اس کی علم دشمنی کی وجہ سے لوگوں نے چرچ کے ساتھ دین سے بیزاری اختیار کی، جس کے اثر پوری انسانیت اور تمام ادیان پر پڑا۔

۴۔ اِنۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۭ: تمہارے پاس اللہ کے لیے فرزند ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ اللہ کی ربوبیت ، خالقیت، معبود ہونے کے لیے فرزند کا ہونا ضروری ہے بلکہ دلیل اس کے خلاف ہے کہ فرزند ہونا اللہ کی ربوبیت، خالقیت اور معبود ہونے کے منافی ہے۔ فرزند باپ کا حصہ ہوتا ہے، جو اس سے جدا ہوتا ہے۔ اگر اللہ کا بیٹا ہے تو یہ بیٹا اللہ کا حصہ ہو گا جو اس سے جدا ہوا۔ اس سے اللہ کا مادی اور مرکب ہونا اور بیٹے کا محتاج ہونا لازم آتا ہے۔ یہ سب اللہ کے لیے محال ہے۔

۵۔ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ: اللہ کے لیے بیٹا ہونے کا مفروضہ جہالت پر مبنی ہے۔ یہ مفروضہ کسی علم و دلیل اور واقعیت پر مبنی نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ہر موقف کے پیچھے ایک دلیل کا ہونا ضروری ہے: اِنۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۭ بِہٰذَا ۔۔۔۔

۲۔علم کے بغیر کسی بات کو قبول کرنے کا حق نہیں پہنچتا: اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۔۔۔۔


آیت 68