اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ ؕ آٰلۡـٰٔنَ وَ قَدۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔کیا جب عذاب آ چکے گا تب اس پر ایمان لاؤ گے؟ کیا اب (بچنا چاہتے ہو؟) حالانکہ تم خود اسے جلدی چاہ رہے تھے۔

ثُمَّ قِیۡلَ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡخُلۡدِ ۚ ہَلۡ تُجۡزَوۡنَ اِلَّا بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡسِبُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ پھر ظالموں سے کہا جائے گا:دائمی عذاب چکھو، جو تم کرتے رہے ہو اس کی سزا کے علاوہ اور تمہیں کیا مل سکتا ہے؟

وَ یَسۡتَنۡۢبِئُوۡنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ ؕؔ قُلۡ اِیۡ وَ رَبِّیۡۤ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ۚؕؔ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ﴿٪۵۳﴾

۵۳۔اور یہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں (کہ جو آپ کہ رہے ہیں) کیا وہ حق ہے؟ کہدیجئے: ہاں! میرے رب کی قسم یقینا یہی حق ہے اور تم اللہ کو کسی طرح عاجز نہیں کر سکتے۔

53۔ منکرین اگرچہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہر بات کی تکذیب کرتے تھے لیکن وہ اندر سے خوفزدہ بھی تھے اور پوچھتے تھے کہ یہ دھمکی صرف دہشت زدہ کرنے کے لیے ہے یا واقعی ہے؟ جواب نہایت ٹھوس لفظوں میں دیا کہ اس عذاب نے حتماً آنا ہے جب یہ عذاب آئے گا تو اس وقت تم کچھ کر بھی نہیں سکتے۔

وَ لَوۡ اَنَّ لِکُلِّ نَفۡسٍ ظَلَمَتۡ مَا فِی الۡاَرۡضِ لَافۡتَدَتۡ بِہٖ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ ۚ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور جس جس نے ظلم کیا ہے اگر اس کے پاس روئے زمین کی دولت بھی ہو تب بھی وہ (عذاب سے بچنے کے لیے یہ پوری دولت) فدیہ دینے پر آمادہ ہو جائے گا اور جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو دل ہی دل میں پشیمان ہوں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

54۔ عذاب کی شدت اور حدت کی طرف اشارہ ہے کہ منکرین اس سے بچنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوں گے اور رسوائی کا یہ عالم ہو گا کہ وہ اپنی ندامت کا اظہار بھی نہیں کر پائیں گے اور دل ہی دل میں پچھتاتے رہیں گے۔

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ آگاہ رہو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے یقینا وہ اللہ کی ملکیت ہے، اس بات پر بھی آگاہ رہو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

55۔ پوری کائنات کی ملکیت اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی صاحب اختیار نہیں ہے جو اس کے وعدے کی تکمیل میں رکاوٹ بنے۔ موت و حیات بھی اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں یوں تمام مخلوقات نے بالآخر اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، لہٰذا اللہ اپنی حکمت بالغہ سے جیسے چاہے گا تصرف کرے گا۔ یوں وعدﮤ الہی کے مطابق عمل ہو کر رہے گا تو سچ ثابت ہو گا۔

یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ اس کے جواب میں فرمایا: اس وعدے کا تعلق اس الٰہی قانون و دستور کے ساتھ ہے جو تمام قوموں پر حاکم ہے۔ وہ دستور یہ ہے کہ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۔ ہر امت کے لیے ایک عمر ہوتی ہے اور ایک وقت مقرر ہے، اس عمر کو پورا کرنے کے بعد مہلت نہیں دی جائے گی۔

ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔

57۔ ٭ قرآن موعظہ ہے اور انسان کو ہر قسم کے خطرات سے بچاتا ہے۔ ٭ قرآن دل کی تمام بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ ٭ قرآن ہدایت ہے۔ یہ انسان کو ہر قسم کے ہلاکت خیز راستوں سے بچا کر راہ راست کی طرف لے جاتا ہے۔ ٭قرآن رحمت ہے اور اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ کی تجلی ہے۔ یہ ہیں وہ ارتقائی مراحل جو مَّوۡعِظَۃٌ سے شروع ہو کر رَحۡمَۃٌ پر ختم ہوتے ہیں۔

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔کہدیجئے: اللہ کے اس فضل اور اس کی اس رحمت کو پا کر لوگوں کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس (مال و متاع) سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں

58۔ قرآن کے ذریعے جس فضل و کرم سے اللہ نے اپنے بندوں کو نوازا اور قرآن کو فیضان رحمت کا وسیلہ بنایا ہے، وہ مومن کے لیے متاع حیات و سرمایہ زندگی ہے۔ اگر انسان نے کسی چیز کو پا کر خوش ہونا ہے تو اس فضل و رحمت کو پا کر خوش ہونا چاہیے۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ فَجَعَلۡتُمۡ مِّنۡہُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا ؕ قُلۡ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمۡ اَمۡ عَلَی اللّٰہِ تَفۡتَرُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے نازل کیا ہے اس میں سے تم از خود کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال ٹھہراتے ہو؟ کہدیجئے: کیا اللہ نے تمہیں (اس بات کی) اجازت دی ہے یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟

59۔ قانون سازی کا حق، اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا حصہ ہے۔ لہٰذا اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ کل مشرکین تشریع و تقنین (قانون سازی) میں اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت کرتے تھے، آج مسلمان اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرنے کے بعد بھی قانون سازی کے معاملے میں اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت کرتے ہیں۔

قیاس و استحسان ذاتی رائے ہے، ما اذن اللّہ میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا ان چیزوں سے حلال و حرام ثابت کرنا مداخلت فی التشریع ہے، خواہ اس پر کتنا زور صرف کر دیا جائے۔ کیونکہ قیاس میں محل نص کے علاوہ غیر منصوص کا حکم ذاتی رائے سے نکالا جاتا ہے۔

وَ مَا ظَنُّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا کیا خیال ہے قیامت کے دن کے بارے میں کہ (اللہ ان کیساتھ کیا سلوک کرے گا؟) اللہ تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔