آیت 65
 

وَ لَا یَحۡزُنۡکَ قَوۡلُہُمۡ ۘ اِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ؕ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور (اے نبی) آپ کو ان (کافروں) کی باتیں رنجیدہ نہ کریں ساری بالادستی یقینا اللہ کے لیے ہے، وہ خوب سننے والا، دانا ہے۔

تفسیر آیات

سابقہ آیت میں فرمایا: اولیآء اللہ کو نہ خوف لاحق ہوتا ہے نہ حزن تو سرکار اولیآء کے لیے نہ ہونا تو نہایت طبیعی بات ہے۔ تاہم یہاں حزن و ملال کا امکان اس لیے نظر آتا ہے کہ یہ اپنی ذات کے لیے نہ تھا بلکہ کافروں کی طرف سے دین اسلام، قرآن، توحید اور نظریہ آخرت کو طنز و استہزاء کا نشانہ بنانے پر اللہ کے لیے رنجیدہ ہو رہے تھے۔ اس لیے اپنے حبیب کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپؐ رنجیدہ نہ ہوں۔ سارا غلبہ اور ساری طاقت اور بالادستی اللہ کے پاس ہے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب مکہ میں مشرکین کی اکثریت تھی اور بظاہر قوت و غلبہ اور ساری بالا دستی ان کے پاس تھی۔ اسی طاقت و کثرت کی بنیاد پر وہ رسول اللہؐ کی تکذیب کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو طالب کا یتیم کہہ کر طنز و تعریض کا نشانہ بناتے تھے۔ اس وقت یہ وعدہ فتح و غلبہ ہے اور عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ بالا دستی اللہ کے پاس ہے۔ صدق اللّٰہ العلی العظیم ۔

اہم نکات

۱۔ طاقت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے: اِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔


آیت 65