اِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ شَہۡوَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النِّسَآءِ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، بلکہ تم تو تجاوزکار ہو۔

وَ مَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ قَرۡیَتِکُمۡ ۚ اِنَّہُمۡ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ اور ان کی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ کہیں: انہیں اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بڑے پاکیزہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ۖ کَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔چنانچہ ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو نجات دی سوائے ان کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿٪۸۴﴾

۸۴۔اور ہم نے اس قوم پر ایک بارش برسائی پھر دیکھو ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔

وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۸۵﴾

۸۵۔ اور اہل مدین کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آ چکی ہے، لہٰذا تم ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں اصلاح ہو چکی ہو تو اس میں فساد نہ پھیلاؤ، اگر تم واقعی مومن ہو تو اس میں خود تمہاری بھلائی ہے۔

85۔ مَدۡیَنَ : بحر احمر اور خلیج عقبہ کے جنوب اور حجاز کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ علاقہ تجارتی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ یمن سے مکہ اور شام کا راستہ، دوسری طرف عراق سے مصر کا راستہ اس علاقے سے گزرتا تھا۔ یہ شہر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک صاحبزادے حضرت مدین کے نام سے موسوم ہے۔

وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوۡعِدُوۡنَ وَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ ۪ وَ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو خوفزدہ کرنے،انہیں اللہ کے راستے سے روکنے اور اس میں کجی پیدا کرنے کے لیے ہر راستے پر(راہزن بن کر) مت بیٹھا کرو اور یہ بھی یاد کرو جب تم کم تھے اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔

86۔ اس آیت سے حضرت شعیب علیہ السلام کو اپنی قوم کی طرف سے پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوتا۔ہے کہ وہ رہزن بن کر اہل ایمان کو امن و سکون سے ایمان کی راہ پر چلنے نہ دیتے تھے۔ اس بارے میں وہ تین طریقوں سے اہل ایمان پر حملہ کرتے تھے۔ پہلا یہ کہ انہیں خوفزدہ کرتے تھے۔ دوسرا یہ کہ ایمان لانے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے تھے۔ تیسرا یہ کہ دلوں میں شبہ پیدا کر کے کجی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

وَ اِنۡ کَانَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡکُمۡ اٰمَنُوۡا بِالَّذِیۡۤ اُرۡسِلۡتُ بِہٖ وَ طَآئِفَۃٌ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا فَاصۡبِرُوۡا حَتّٰی یَحۡکُمَ اللّٰہُ بَیۡنَنَا ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور اگر تم میں سے ایک گروہ میری رسالت پر ایمان لاتا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لاتا تو ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

87۔ ہر نبی کی قوم کا یہی حال رہا ہے کہ ایک گروہ ایمان لے آتا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لاتا۔ اہل ایمان ہمیشہ کافروں کی طرف سے اذیت و مصائب کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں فَاصۡبِرُوۡ صبر کرو بیک لہجہ اہل ایمان کے لیے نوید فتح و نصرت ہے اور کافروں کے لیے دھمکی اور انجام بد کی خبر ہے۔

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ﴿۟۸۸﴾

۸۸۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب!ہم تجھے اور تیرے مومن ساتھیوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے مذہب میں واپس آنا ہو گا،شعیب نے کہا:اگر ہم بیزار ہوں تو بھی ؟

88۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا نسب نامہ: شعیب علیہ السلام بن میکیل بن یشجر بن مدین بن ابراہیم علیہ السلام ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کو متکبر سرداروں نے عقل و استدلال کی جگہ طاقت کے استعمال کی دھمکی دی کہ آپ علیہ السلام یا تو ملک چھوڑ دیں یا ہمارا مذہب قبول کریں۔ جواب میں حضرت شعیب علیہ السلام نے عقلی اور منطقی طرز استدلال اختیار کرتے ہوئے فرمایا: کیا کراہت و بیزاری کے ساتھ کسی مذہب کو اختیار کیا جاتا ہے؟ کیونکہ کسی مذہب کو قبول کرنے اور مسترد کرنے میں جبر کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔

قَدِ افۡتَرَیۡنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنۡ عُدۡنَا فِیۡ مِلَّتِکُمۡ بَعۡدَ اِذۡ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنۡہَا ؕ وَ مَا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّعُوۡدَ فِیۡہَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ؕ رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔اگر ہم تمہارے مذہب میں واپس آ گئے تو ہم اللہ پر بہتان باندھنے والے ہوں گے جبکہ اللہ نے ہمیں اس (باطل) سے نجات دے دی ہے اور ہمارے لیے اس مذہب کی طرف پلٹنا کسی طرح ممکن نہیں مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے، ہمارے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے، ہم نے اللہ (ہی) پر توکل کیا ہے، اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان برحق فیصلہ کر اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

89۔ کفر اختیار کرنے اور نہ کرنے کے مسئلے کو مشیت خداوندی سے مربوط کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کفر کو بھی چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے کہ کوئی بندہ کافر ہو جائے تو وہ اسے کافر بنا دیتا ہو،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ سے ہٹ کر قطعی بات کرنا انبیاء علیہ السلام کے ہاں خلاف ادب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے قول و فعل کو مشیت خداوندی سے مربوط کرتے ہیں۔

وَ قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَئِنِ اتَّبَعۡتُمۡ شُعَیۡبًا اِنَّکُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ اور قوم شعیب کے کافر سرداروں نے کہا: اگر تم لوگوں نے شعیب کی پیروی کی تو یقینا بڑا نقصان اٹھاؤ گے ۔

90۔ ایمان کی منزل پر فائزہونے والا نہ شک کرتا ہے نہ مرتد ہوتا ہے۔جبکہ مادی سوچ رکھنے والوں کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ شریعت کی پابندی میں خسارہ ہے۔