آیت 86
 

وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوۡعِدُوۡنَ وَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ ۪ وَ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو خوفزدہ کرنے،انہیں اللہ کے راستے سے روکنے اور اس میں کجی پیدا کرنے کے لیے ہر راستے پر(راہزن بن کر) مت بیٹھا کرو اور یہ بھی یاد کرو جب تم کم تھے اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔

تفسیر آیت

۱۔ وَ لَا تَقۡعُدُوۡا: اس آیت سے حضرت شعیب (ع) کو اپنی قوم کی طرف سے پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ رہزن بن کر اہل ایمان کو امن و سکون سے ایمان کی راہ پر چلنے نہ دیتے تھے۔ اس بارے میں وہ تین طریقوں سے اہل ایمان پر حملہ کرتے تھے:

تُوۡعِدُوۡنَ: پہلا یہ کہ ان کو خوفزدہ کرتے تھے ۔

ii۔ تَصُدُّوۡنَ: دوسرا یہ کہ ایمان لانے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے تھے۔

iii۔ وَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا: تیسرا یہ کہ دلوں میں شبہ پیدا کر کے کجی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

۲۔ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ: نسلی افزائش خوشحالی کی علامت ہے۔ بعض روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے صاحبزادے حضرت مدین کی اولاد کو اللہ نے نسلی افزائش کے ذریعے ایک کثیر تعداد پر مشتمل ایک قوم بنایا۔

اہم نکات

۱۔ ہادیان برحق کے دشمن ہمیشہ ایمان کی راہ میں رہزن ہوا کرتے ہیں: وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ ۔

۲۔ کفر کے مقابلے میں آبادی میں اضافہ نعمت ہے: فَکَثَّرَکُمۡ ۔۔۔۔


آیت 86