آیات 80 - 81
 

وَ لُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور لوط (کا ذکر کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا میں کسی نے اس کا ارتکاب نہیں کیا۔

اِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ شَہۡوَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النِّسَآءِ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، بلکہ تم تو تجاوزکار ہو۔

تفسیر آیات

حضرت لوط بن حاران بن تارخ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی بھتیجے۔ آپؑ عراق کی سرزمین کلدانیوں کی بستی ’’ اور‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مابین النہرین تشریف لے گئے۔ وہاں سے جزیرہ قورا چلے گئے، جسے آج کل جزیرۂ ابن عمر کہتے ہیں، جو نہر دجلہ کے کنارے پر واقع ہے۔ وہاں آشوریوں کی حکومت قائم تھی۔ وہاں سے کنعان کی سرزمین کی طرف چلے گئے۔ حضرت ابراہیمؑ کے حکم پر آپؑ نے شرق اردن کے سرسبز و شاداب علاقے کو اپنی تبلیغ کا مرکز بنایا۔ حضرت لوطؑ کی اس قوم کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہیں تھی، اس لیے لوطؑ کو ان کی برادری کا نہیں فرمایا۔

توریت میں ان کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، البتہ یہودی مزاج بہتان تراشیوں کے ساتھ ۔

قوم لوط: یہ قوم عراق و فلسطین کے درمیان مشرق اردن میں بستی تھی۔ ان کے دارالحکومت کا نام سدوم تھا جو بحیرۂ مردار ، جسے بحر لوط بھی کہتے ہیں، کے کنارے آباد تھا۔ اس بحیرہ کے گرد کئی ایک بستیاں آباد تھیں۔ تاریخ میں ان بستیوں کا نام بھی آتا ہے لیکن آج ان بستیوں کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بعض مورخین یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ممکن ہے یہ بستیاں بحیرہ مردار میں غرق ہو گئی ہوں۔

مَا سَبَقَکُمۡ: اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قوم لوط نے ہی ہم جنس بازی کے عمل بد کی ابتدا کی، اس کو رواج دیا اور دنیا میں اس غیر فطری فحش کاری کو متعارف کرایا۔ لہٰذا یہ قوم اس عمل بد کے ارتکاب کے علاوہ اس کو رواج دینے اور اسے دنیا میں متعارف کرانے کی بھی مجرم ہے۔ قوم لوط کے بعد یونانی قوم نے اس فحش کاری کو اخلاقی جواز دینے کی کوشش کی اور مغرب کی جدید جاہلیت نے تو اس کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا اور اس خیانت کو قانون کا سہارا دیا۔ یہ لوگ صنفی حقوق کی ضامن تعدد زوجات کو ناجائز سمجھتے ہیں لیکن مردوں کو زنانہ پن میں مبتلا اور کم از کم دو عورتوں کی جنسی حق تلفی کر کے ان کے لیے صنفی خیانت اور اخلاقی بے راہ روی کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ تعدد زوجات کو غیر انسانی اور تعدد تجاوزات کو اخلاقی و قانونی سمجھتے ہیں۔ مغرب کے مادی انسان کی فکری و اخلاقی پستی اور قدروں کی پامالی پر حیرت ہوتی ہے، لیکن طفیلی سوچ رکھنے والے مشرقی مغرب زدہ حضرات کی حالت زار پر تو حیرت کی انتہا ہوتی ہے کہ وہ بھی تعدد زوجات کے بارے میں مغربی سوچ سے بات کرتے ہیں۔

جنسی انحراف میں عمل قوم لوط سب سے بڑا گناہ ہے کہ کسی گناہ کے لیے اس قدر شدید سزا نہیں جیسی اس جرم کی ہے۔ چنانچہ فاعل اور مفعول دونوں کی سزا قتل ہے اور قتل کا طریقہ بھی نہایت خوفناک اختیار کرنے کا حکم ہے۔ اس عمل بد پر مترتب ہونے والی منفی نفسیات کی بنا پر فاعل پر مفعول کی بہن، بیٹی اور ماں حرام ہو جاتی ہیں، اگر شادی سے پہلے یہ عمل بد واقع ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس عمل بد کے مرتکب پر کس قدر منفی نفسیاتی اثرات مترتب ہوتے ہیں اور انسان سے رجولیت اور مردانگی کی شہامت اور شخصیت سلب ہو جاتی ہے۔ تجربے نے بتایا ہے کہ ایسے لوگ مردانہ قوت کے مالک نہیں رہتے اور مردوں کے عورتوں سے بے نیاز ہونے کی وجہ سے عورتوں میں بے عفتی آ جاتی ہے۔

روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے شیعوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَ لَمْ یَکُنْ فِیھِمْ مَنْ یُوْتَی فِی دُبُرِہِ ۔ (اصول الکافی ۵ : ۵۵۱۔ وسائل الشیعۃ ۲۰ : ۳۳۷۔ کتاب الخصال، تفسیر نور الثقلین ۲: ۵۰)

ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ شیعہ ہم جنس بازی کے عمل سے پاک رہتے ہیں۔


آیات 80 - 81