فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ ﴿ۚۖۛ۹۱﴾

۹۱۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے آ لیا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

91۔ مدین کی تباہی کی داستانیں بعد کی قوموں میں ایک مدت تک ضرب المثل بنی رہیں اور توریت کی گنتی 31 تا 35 میں مدین کی تباہی کا ذکر ملتا ہے۔

الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا شُعَیۡبًا کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ۚۛ اَلَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا شُعَیۡبًا کَانُوۡا ہُمُ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی (ایسے تباہ ہوئے) گویا وہ کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے، شعیب کی تکذیب کرنے والے خود خسارے میں رہے۔

فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوۡمٍ کٰفِرِیۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ شعیب ان سے نکل آئے اور کہنے لگے: اے میری قوم!میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچائے اور تمہیں نصیحت کی، تو (آج) میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں؟

93۔ اللہ ارحم الراحمین ہے۔ اس کی رحمت ہر شے پر محیط ہے۔ اس کی عظیم اور وسیع رحمت کے شامل حال ہونے کے لیے اہلیت شرط ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ کافر قوم کی حالت پر رنج و الم کیوں کروں، اس بات کا اظہار ہے کہ جو لوگ رحمت الٰہی کی اہلیت نہیں رکھتے وہ قابل رحم بھی نہیں ہوتے۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور ہم نے جس بستی میں بھی نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں ۔

ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

94۔95۔ بعض اقوام و امم کے حالات اور ان کے انجام کے ذکر کے بعد اللہ اپنی اس لایتغیر سنت اور ثابت نظام کو بیان فرماتا ہے جس سے اس نے ہر قوم کو گزارا۔

پہلے اس قوم کو مصائب و آفات میں ڈالا اور طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ لوگوں کے غرور و تکبر کا نشہ ٹوٹ جائے اور اپنی طاقت و قوت اور مال و دولت قوم و قبیلہ کے بھروسے پر اس کی نخوت کا طلسم بھی ٹوٹ جائے۔ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ ۔ (حم سجدہ: 51) جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ایسے حالات میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے ہیں اور دعوت الی اللہ کے لیے فضا سازگار اور زمین ہموار مل جاتی ہے۔

چنانچہ ماہرین نفسیات کا بھی یہی نظریہ ہے کہ مصائب و آفات انسان کی تربیت و اصلاح کے لیے نہایت ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ عالمی جنگوں کے دوران یہ بات سب کے مشاہدے میں آئی ہے کہ عبادت گاہیں ہر وقت سے زیادہ آباد رہتیں تھیں اور یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ شدائد و مصائب سے صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ اسی سے ہے کہ اکثر نابغۂ روزگار غریب اور نادار خاندانوں سے ابھرتے ہیں۔

اس سازگار فضا میں بھی ان کا تکبر و نخوت فرو نہیں ہوتا تو ان کو آسودگی اور دولت کی فراوانی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔اس وقت وہ اپنے برے دن بھول جاتے ہیں اور اسے اللہ کی طرف سے آزمائش و امتحان کے طور پر قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے، بلکہ اسے طبیعت کا کھیل تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد بھی اس نشیب و فراز سے دو چار رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کسی قصد و ارادہ اور کسی شعور و مصلحت کا کوئی دخل نہیں ہے۔جیسے ہمارے برے دن بے مقصد آئے تھے ایسے یہ اچھے دن بھی اتفاقیہ ہیں۔ اسی لغو اور طغیانی اور غفلت و نادانی کے عین عالم میں ان کو اچانک گرفت میں لے لیا گیا اور نابود ہو گئے۔

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔

96۔ ایمان باللہ انسانی زندگی سے الگ کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔ ایمان باللہ کا حامل معاشرہ ظلم و استحصال سے پاک ہو گا اور ہر ایک کو قدرتی وسائل و ذرائع اور ذخائر سے استفادہ کرنے کا مساویانہ حق اور موقع ملے گا۔ اس طرح نعمتوں کی فراوانی ہو جائے گی۔ البتہ مادی وسائل کے لیے نظریات کافی نہیں ہوتے، بلکہ نظریات مادی وسائل سے مساویانہ استفادہ کرنے کا حق دلانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اَفَاَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا بَیَاتًا وَّ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ ﴿ؕ۹۷﴾

۹۷۔کیا ان بستیوں کے لوگ بے فکر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آ جائے جب وہ سو رہے ہوں ؟

97 تا 99۔ سرکش اقوام کا انجام اور سنت الٰہی بیان کرنے کے بعد دوسری قوموں کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے پروردگار عالم فرماتا ہے: عذاب خداوندی میں آزمائشی وقفے سے کسی قوم کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کیونکہ مجرموں کو مکافات عمل اس وقت اپنی گرفت میں لے گا جب وہ فحشا اور خواب غفلت میں مگن ہوں گے۔ مَکۡرَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کا وہ عذاب ہے جو مجرموں پر اس وقت آ پڑتا ہے جب وہ اپنی بد مستیوں اور بے شعوری کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ ان کی اپنی بے حسی کی وجہ سے اللہ انہیں ایسی راہ پر لگا دیتا ہے جس سے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے حق میں یہ بہتر ہے حالانکہ وہ عذاب الٰہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔

اَوَ اَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا ضُحًی وَّ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔یا کیا ان بستیوں کے لوگ بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کو آجائے جب وہ کھیل رہے ہوں؟

اَفَاَمِنُوۡا مَکۡرَ اللّٰہِ ۚ فَلَا یَاۡمَنُ مَکۡرَ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿٪۹۹﴾

۹۹۔کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے خوف نہیں کرتے اللہ کی تدبیر سے تو فقط خسارے میں پڑنے والے لوگ بے خوف ہوتے ہیں۔

اَوَ لَمۡ یَہۡدِ لِلَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَہۡلِہَاۤ اَنۡ لَّوۡ نَشَآءُ اَصَبۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ ۚ وَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ جو لوگ اہل زمین (کی ہلاکت) کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں،کیا ان پر یہ بات عیاں نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کے جرائم پر انہیں گرفت میں لے سکتے ہیں؟ اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں پھر وہ کچھ نہیں سنتے ۔

100۔ ہر آنے والی قوم کے لیے اپنے پیشرؤں کا انجام بد سبق آموز ہوتا ہے۔ ان کے عروج و زوال میں عبرتیں ہوتی ہیں کہ ان کو کس قسم کی غلطیوں نے تباہ کر دیا۔ اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں آتی، انہی حالات سے ہر سرکش قوم دو چار ہو گی۔ اس فقرے

سے اللہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ مضطرب الحال رہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ لوگ بیدار رہیں، کیونکہ غفلت میں تباہی اور ہوشیاری میں نجات ہے۔