قَالَ قَدۡ وَقَعَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ رِجۡسٌ وَّ غَضَبٌ ؕ اَتُجَادِلُوۡنَنِیۡ فِیۡۤ اَسۡمَآءٍ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ فَانۡتَظِرُوۡۤا اِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِیۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ ہود نے کہا : تمہارے رب کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب مقرر ہو چکا ہے، کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں؟ اللہ نے تو اس بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

71۔ دنیا میں مختلف قوموں نے جن جن کو خدائی کا مقام دیا ہے اور اپنے وہم و گمان کی بنا پر ان کو خدائی کا کچھ حصہ دیا اور اس کے لیے ایک نام تجویز کیا جو اللہ کے ساتھ شریک اور خدائی اختیارات میں حصہ دار ہونے کا عندیہ دیتا ہے۔ ان کے پاس کوئی دلیل و سند بھی نہیں ہوتی، صرف باپ دادا کی اندھی تقلید ہی کو سند کا درجہ دیتے ہیں۔

فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ بِرَحۡمَۃٍ مِّنَّا وَ قَطَعۡنَا دَابِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا کَانُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿٪۷۲﴾

۷۲۔ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے ہود اور انکے ساتھیوں کو بچا لیا اور جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی (کیونکہ) وہ تو ایمان لانے والے ہی نہ تھے۔

72۔ قوم عاد کا وہ حصہ جو عذاب الٰہی سے نابود ہو گیا اسے عاد اولیٰ کہتے ہیں اور حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ جو حصہ باقی رہا اسے عاد ثانیہ کہتے ہیں۔

وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمۡ اٰیَۃً فَذَرُوۡہَا تَاۡکُلۡ فِیۡۤ اَرۡضِ اللّٰہِ وَ لَا تَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۳﴾

۷۳۔اور قوم ثمود کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آ چکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک نشانی ہے، اسے اللہ کی زمین میں چرنے دینا اور اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ دردناک عذاب تمہیں آ لے گا۔

73۔ ثَمُوۡدَ : قوم ثمود کا نام ان کے بزرگ ثمود بن جیشر کی طرف منسوب ہے۔ قوم ثمود عرب کے مغربی و شمالی علاقوں میں آباد تھی۔ ان کے دار الحکومت کا نام الحجر تھا جس کا موجودہ نام مدائن صالح ہے جو حجاز سے شام کو جانے والے قدیم راستے پر واقع ہے۔

حضرت صالح بن آسف بن کاشح بن اردم بن ثمود بن جیشر بن ارم بن سام بن نوح۔ ناقۂ صالح کے بارے میں کچھ حضرات کا یہ خیال درست نہیں کہ یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ صرف امان کی علامت تھی جبکہ قرآن کی صریح آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ناقۂ صالح ایک معجزہ تھی۔

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُہُوۡلِہَا قُصُوۡرًا وَّ تَنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُیُوۡتًا ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ اور یاد کرو جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں آباد کیا، تم میدانوں میں محلات تعمیر کرتے ہو اور پہاڑ کو تراش کر مکانات بناتے ہو، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔

74۔ قوم ثمود اپنے زمانے کی متمدن قوم تھی۔ وہ میدانوں میں قلعے اور محلات تعمیر کرتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر عالی شان محلات بناتے تھے۔ چنانچہ مدائن صالح میں آج تک ان عمارتوں کے آثار نمایاں طور پر موجود ہیں۔ بعض روایات کے مطابق رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غزوﮤ تبوک کو جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرے تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمنے اس کنویں کی نشاندہی فرمائی جس سے ناقہ صالح پانی پیتی تھی اور فج الناقۃ نامی وہ درہ بھی دکھایا جہاں سے بعض روایات کے مطابق اونٹنی نکلی تھی۔

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لِلَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِمَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ اَتَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرۡسَلٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلَ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کمزور طبقہ اہل ایمان سے کہا: کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجے گئے(رسول)ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: جس پیغام کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔

75۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ انبیاء کی دعوت کے سامنے مراعات یافتہ، خوشحال طبقہ ہی رکاوٹ بنتا ہے، کیونکہ عدل و انصاف سے یہی طبقہ متأثر ہوتا ہے۔ محروم طبقہ ہمیشہ عدل و انصاف چاہتا ہے نیز مراعات یافتہ طبقے میں غرور و سرکشی آ جاتی ہے۔ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ﴿﴾اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿﴾ (علق:6۔7) انسان جب اپنے آپ کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے۔ قوم ثمود کے مراعات یافتہ طبقہ مستکبرین نے اپنی رعونت کے ساتھ ایمان والے محروم طبقہ مستضعفین سے کہا: اَتَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرۡسَلٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ؟ اہل ایمان پوری استقامت کے ساتھ ان کے سامنے یہ کہ کر ڈٹ گئے: اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلَ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ﴿﴾ ہم اس کے ہر پیغام پر ایمان لاتے ہیں۔

قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا بِالَّذِیۡۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ متکبرین نے کہا: جس پر تمہارا ایمان ہے ہم تو اس سے منکر ہیں۔

فَعَقَرُوا النَّاقَۃَ وَ عَتَوۡا عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہِمۡ وَ قَالُوۡا یٰصٰلِحُ ائۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔آخر انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیے اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے : اے صالح! اگر تم واقعی پیغمبر ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔

فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے گرفت میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔پس صالح اس بستی سے نکل پڑے اور کہا:اے میری قوم! میں نے تو اپنے رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔

وَ لُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور لوط (کا ذکر کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا میں کسی نے اس کا ارتکاب نہیں کیا۔

80۔ حضرت لوط بن حاران بن تارح، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی بھتیجے تھے۔ آپ عراق کی سرزمین کلدانیوں کی بستی اور میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مابین النہرین تشریف لے گئے وہاں سے جزیرہ قورا چلے گئے جسے آج کل جزیرﮤ ابن عمر کہتے ہیں جو نہر دجلہ کے کنارے پر واقع ہے جہاں آشوریوں کی حکومت قائم تھی۔ وہاں سے کنعان کی سرزمین کی طرف چلے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حکم پر آپ نے شرق اردن کے سرسبز و شاداب علاقہ کو اپنی تبلیغ کا مرکز بنایا۔

قوم لوط: یہ قوم عراق و فلسطین کے درمیان واقع شرق اردن میں بستی تھی۔ ان کے دار الحکومت کا نام سدوم تھا جو بحیرﮤ مردار جسے بحر لوط بھی کہتے ہیں کے کنارے پر آباد تھا۔ اس بحیرہ کے گرد کئی ایک بستیاں آباد تھیں۔ تاریخ میں ان بستیوں کا نام بھی آتا ہے لیکن آج ان بستیوں کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بعض مؤرخین یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ممکن ہے یہ بستیاں بحیرہ مردار میں غرق ہو گئی ہوں۔

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قوم لوط نے ہی ہم جنس بازی کے عمل بد کی ابتدا کی اور اسی کو رواج دیا اور دنیا میں اس غیر فطری فحش کاری کو متعارف کرایا۔ لہٰذا یہ قوم اس عمل بد کے ارتکاب کے علاوہ اسے رواج دینے اور اسے دنیا میں متعارف کرانے کی بھی مجرم ہے۔ قوم لوط کے بعد یونانی قوم نے اس فحش کاری کو اخلاقی جواز دینے کی کوشش کی اور مغرب کی جدید جاہلیت نے تو اس کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا۔ یہ لوگ صنفی حقوق کے ضامن تعدد زوجات کو نا جائز سمجھتے ہیں لیکن مردوں کو زنانہ پن میں مبتلا کر کے اقلاً دو عورتوں کی جنسی حق تلفی کر کے ان کے لیے صنفی خیانت اور اخلاقی بے راہ روی کے اسباب فراہم کرتے ہیں، اس طرح وہ تعدد زوجات کو غیر انسانی اور تعدد تجاوزات کو اخلاقی و قانونی سمجھتے ہیں۔ مغرب کے مادی انسان کی فکری و اخلاقی پستی اور قدروں کی پامالی پر حیرت ہوتی ہے لیکن طفیلی سوچ رکھنے والے مشرقی مغرب زدہ حضرات کی حالت زار پر تو حیرت کی انتہا ہوتی ہے کہ وہ بھی تعدد زوجات کے بارے میں مغربی سوچ سے بات کرتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے شیعوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہم جنس بازی کے عمل سے پاک رہتے ہیں: لا یکون فیھم من یؤتی فی دبرہ ۔ (کتاب الخصال، تفسیر نور الثقلین 2: 50)