آیت 88
 

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ﴿۟۸۸﴾

۸۸۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب!ہم تجھے اور تیرے مومن ساتھیوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے مذہب میں واپس آنا ہو گا،شعیب نے کہا:اگر ہم بیزار ہوں تو بھی ؟

تشریح کلمات

مِلَّتِنَا: ملۃ ۔ دین اور ملت تقریباً ایک معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ملت کی اضافت صرف اسی نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے۔ جیسے ملت ابراہیم۔ دوسرا فرق یہ بیان کیا گیا ہے من جانب اللہ شروع ہونے کے لحاظ سے ملت اور اس پر عمل کرنے کے لحاظ سے دین کہا جاتا ہے کیونکہ دین کے معنی اطاعت و فرمانبرداری ہیں۔ (راغب)

تفسیر آیات

حضرت شعیب علیہ السلام کو جابر اور متکبر سرداروں نے منطق اور استدلال کی جگہ طاقت کے استعمال کی دھمکی دی اور کہا: اے شعیبؑ آپ کو یا تو ملک چھوڑنا ہو گا یا اپنا دین چھوڑ کر ہمارے دین کی طرف آنا ہو گا۔ طاقت کی اس غیر منطقی زبان کے جواب میں حضرت شعیبؑ نے عقل و منطق کی بات کی اور فرمایا: کیا کراہت اور بیزاری کے ساتھ بھی کسی دین و مذہب کا اختیار کرنا معقول ہوتا ہے کیونکہ دل طاقت کے سامنے ہتھیار کبھی نہیں ڈالتا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں بقرہ: ۲۵۶۔

اہم نکات

۱۔ دین الٰہی قبول کرنے میں جبر چل سکتا ہے نہ مسترد کرنے میں: اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ۔


آیت 88