مشیت الٰہی سے مراد


قَدِ افۡتَرَیۡنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنۡ عُدۡنَا فِیۡ مِلَّتِکُمۡ بَعۡدَ اِذۡ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنۡہَا ؕ وَ مَا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّعُوۡدَ فِیۡہَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ؕ رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔اگر ہم تمہارے مذہب میں واپس آ گئے تو ہم اللہ پر بہتان باندھنے والے ہوں گے جبکہ اللہ نے ہمیں اس (باطل) سے نجات دے دی ہے اور ہمارے لیے اس مذہب کی طرف پلٹنا کسی طرح ممکن نہیں مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے، ہمارے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے، ہم نے اللہ (ہی) پر توکل کیا ہے، اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان برحق فیصلہ کر اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

89۔ کفر اختیار کرنے اور نہ کرنے کے مسئلے کو مشیت خداوندی سے مربوط کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کفر کو بھی چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے کہ کوئی بندہ کافر ہو جائے تو وہ اسے کافر بنا دیتا ہو،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ سے ہٹ کر قطعی بات کرنا انبیاء علیہ السلام کے ہاں خلاف ادب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے قول و فعل کو مشیت خداوندی سے مربوط کرتے ہیں۔