الَّذِیۡنَ یَتَرَبَّصُوۡنَ بِکُمۡ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ فَتۡحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ۫ۖ وَ اِنۡ کَانَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نَصِیۡبٌ ۙ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَسۡتَحۡوِذۡ عَلَیۡکُمۡ وَ نَمۡنَعۡکُمۡ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لَنۡ یَّجۡعَلَ اللّٰہُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سَبِیۡلًا﴿۱۴۱﴾٪

۱۴۱۔ یہ (منافق) تمہارے حالات کا انتظار کرتے ہیں کہ اگر اللہ کی طرف سے تمہیں فتح حاصل ہو تو کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو کچھ کامیابی مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے؟ (اس کے باوجود ہم نے تمہارے ساتھ جنگ نہ کی) اور کیا ہم نے تمہیں مومنوں سے بچا نہیں لیا؟ پس اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔

141۔ ایمان کا انسانی مقدرات میں وہی عمل دخل ہے جو دیگر مادی عوامل کا ہے۔ جیسا کہ اس کائناتی نظام میں اثر کی کمزوری سے مؤثر کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے، بالکل اسی طرح آثار کی کمزوری سے ایمان کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا اگر کبھی کافروں کے مسلمانوں پر غالب آنے کی نوبت آ گئی تو اس سے ایمان کی کمزوری یا فقدان کا پتہ چلتا ہے۔

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۴۲﴾۫ۙ

۱۴۲۔ یہ منافقین (اپنے زعم میں) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے اور جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو سستی کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔

142۔ صدرِ اول کے منافقین ریاکاری کے لیے نماز کے محتاج تھے۔ جیسے آج بھی کچھ لوگ سال میں عید کے دن نماز کے محتاج ہوتے ہیں۔

مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا﴿۱۴۳﴾

۱۴۳۔ یہ لوگ نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف بلکہ درمیان میں سرگرداں ہیں اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کے لیے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے۔

143۔ منافقین ایمان و یقین کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مضطرب رہتے ہیں۔ کبھی وہ مسلمانوں کی طرف جھکتے ہیں کبھی کافروں کی طرف۔ جس کا تکیہ اللہ پر نہ ہو وہ ہمیشہ سراب کے پیچھے بھاگتا ہے اور ایمان کی نعمت والے ہی امن و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ اے ایمان والو! تم مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا حامی مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ خود اپنے خلاف اللہ کے پاس صریح دلیل فراہم کرو؟

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا﴿۱۴۵﴾ۙ

۱۴۵۔منافقین تو یقینا جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور آپ کسی کو ان کا مددگار نہیں پائیں گے ۔

145۔ منافق کافر سے زیادہ بدضمیر اور بدباطن ہوتا ہے کیونکہ کافر تو اپنے مؤقف کا برملا اظہار کرتا ہے اور منافق میں اتنی جرات بھی نہیں ہوتی کہ اپنے موقف کا برملا اظہار کرے۔ اسلامی معاشرے میں یہ مارِ آستین، کافر سے زیادہ خطرناک ہے۔

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ اعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰہِ وَ اَخۡلَصُوۡا دِیۡنَہُمۡ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ وَ سَوۡفَ یُؤۡتِ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۱۴۶﴾

۱۴۶۔البتہ ان میں سے جو لوگ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں اور اللہ سے متمسک رہیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کریں تو ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ عنقریب مومنوں کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیۡمًا﴿۱۴۷﴾

۱۴۷۔ اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟ اور اللہ بڑا قدردان،بڑا جاننے والا ہے۔

147۔ اللہ کسی جذبۂ انتقام کی تشفّی کے لیے بندوں کو عذاب نہیں دیتا، بلکہ عذاب نا شکری اور نافرمانی کا ایک قدرتی رد عمل ہے۔ اگر بندوں کی طرف سے خود عذاب کے اسباب پیدا نہ ہوتے تو اللہ کو عذاب دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا﴿۱۴۸﴾

۱۴۸۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

148۔ ایک مثالی معاشرے اور خیر امت کی تشکیل کے لیے اس امت کو انسانی و اخلاقی قدروں کی تعلیم دی جا رہی ہے اور انسانیت کی تعمیر کے لیے اس امت کو قیادت و امامت کی منزل پر فائز کرنے کے لیے ایسی فضا ہموار کی جا رہی ہے جس میں پرورش پانے والا انسان اعلیٰ اقدار کا مالک بنے نیز اس کا ضمیر پاک اور بیدار ہو۔ کسی شخص کا وقار مجروح کرنا اور اس کا راز فاش کرنا احترام آدمیت کے منافی اور مقام انسانی کے خلاف ہے۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کی برملا برائی کرے۔ البتہ ظالم نے خود احترامِ آدمیت اور کرامت انسانی کی خلاف ورزی کی ہے اور اس نے ظلم کر کے خود اپنے آپ کو فاش کیا ہے لہٰذا ظالم کی برملا برائی کرنا جائز ہے۔

اِنۡ تُبۡدُوۡا خَیۡرًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ اَوۡ تَعۡفُوۡا عَنۡ سُوۡٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیۡرًا﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔ اگر تم کوئی نیک کام علانیہ یا خفیہ کرو یا برائی سے درگزر کرو تو اللہ بڑا معاف کرنے والا، قدرت والا ہے۔

149۔ نیکی کا اظہار کرو یا اسے پوشیدہ رکھو، دونوں باتوں کی اجازت ہے۔ اظہار اس نیت سے ہو کہ لوگوں میں کارِ خیر کا شعور بڑھے اور اگر الزام آنے کا احتمال ہو تو الزام دور ہو جائے اور پوشیدہ اس لحاظ سے ہو کہ ریاکاری کا شائبہ نہ رہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا﴿۱۵۰﴾ۙ

۱۵۰۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور رسولوں کے درمیان تفریق ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور وہ اس طرح کفر و ایمان کے درمیان ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں۔

150۔ یہاں کفار اور منکروں کے تین گروہ قابل تصور ہیں: 1۔ جو اللہ کو مانتے ہیں اور نہ رسولوں کو مانتے ہیں۔ 2۔ جو اللہ کو تو مانتے ہیں، لیکن کسی رسول کو نہیں مانتے۔ 3۔ جو اللہ اور بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض دیگر رسولوں کو نہیں مانتے۔ اس آیت میں فرمایا: یہ سب لوگ کافر ہیں اور سب سے آخری گروہ کے بارے میں فرمایا: یہ لوگ ایمان باللہ اور ایمان بالرسل میں تفریق ڈال رہے ہیں، حالانکہ جو اس کے بعض رسولوں کا انکار کرتے ہیں وہ پکے کافر ہیں۔