آیت 148
 

لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا﴿۱۴۸﴾

۱۴۸۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے اس امت کو انسانی و اخلاقی اقدار کی تعلیم دی جا رہی ہے اور انسانیت کی تعمیر کے لیے اس امت کو قیادت و امامت کی منزل پر فائز کرنے کے لیے ایک ایسی فضا ہموار کی جا رہی ہے، جس میں پرورش پانے والا انسان اعلی اقدار کا مالک ہو۔ اس کا ضمیر پاک اور بیدار ہو۔

۱۔ لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ: کسی کی شخصیت کو مجروح کرنا، معاشرے میں اس کا راز فاش کرنا، احترام آدمیت کے منافی ہے اور کرامت انسانی کے خلاف ہے۔ اس لیے اللہ اس امت سے خطا ب فرماتا ہے: ’’ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کی برملا برائی کرے‘‘ نیز برائی کرنے سے ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں بڑھ جاتیں اور باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اخوت و بھائی چارہ باقی نہیں رہتا۔ ایک دوسرے کے خلاف عداوت اور کینے سے دلوں میں اضطراب آ جاتا ہے، سکون سلب ہوجاتا ہے اور ایک مضطرب الحال معاشرہ اپنے دامن میں فساد پالتا ہے۔

۲۔ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ: اس سے زیادہ ضرر رساں ظلم و ستم کا فساد ہے۔ اس لیے مظلوم کو اجازت دی ہے کہ وہ ظالم کو برملا برا کہ سکتا ہے۔ کیونکہ ظالم خود احترام آدمیت و انسانی کرامت کے خلاف کام کرتا ہے اور خود اپنے ضمیر کو فاش کرتا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کے خلاف بات کرنا، ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کے مترادف نہیں ہو گا، کیونکہ ظالم کی شخصیت نہیں ہوتی۔

اہم نکات

۱۔اسلام احترام آدمیت کا تحفظ فراہم کرتا ہے :۞ لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ ۔۔۔

۲۔ظالم اپنے ظلم کی وجہ سے انسانی احترام سے محروم ہے۔


آیت 148