آیت 142
 

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۴۲﴾۫ۙ

۱۴۲۔ یہ منافقین (اپنے زعم میں) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے اور جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو سستی کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

یہ منافقین اپنے ظاہری دکھاوے کے اعمال سے رسول اللہ (ص) اور مؤمنین کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے خلوص رکھتے ہیں۔ یہ رسول خدا (ص) اور مومنین کے ساتھ نہیں، فی الواقع اللہ کے ساتھ دھوکہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ خود یہ لوگ اس دھوکے میں ہیں کہ اس طرح وہ رسول (ص) اور مومنین کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ: منافقین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نماز میں کاہلی کرتے ہیں اور صرف ریاکاری کے طو رپر نماز پڑھتے ہیں۔

صدر اول کے منافقین اپنی ریاکاری کے لیے نماز کے محتاج تھے۔ ہمارے معاصر منافقین تو سرے سے نماز کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ البتہ بعض حالات میں مثلاً عید کی نمازوں میں کچھ لوگوں کو ریاکاری کے لیے کبھی نماز کی ضرورت پیش آتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ نماز کے لیے تساہل نفاق کی علامت ہے۔


آیت 142