آیت 144
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ اے ایمان والو! تم مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا حامی مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ خود اپنے خلاف اللہ کے پاس صریح دلیل فراہم کرو؟

تشریح کلمات

سُلۡطٰن:

( س ل ط ) تسلط اور غلبہ۔ دلیل سے غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے دلیل کو بھی سلطان کہا گیا ہے۔

تفسیر آیات

یعنی کفار کو اپنا ولی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا یہ عمل ان کی منافقت کی دلیل ہے، جو بروز قیامت ان کے خلاف حجت بن جائے گی اور ایسے لوگ کفار کے ساتھ محشور ہوں گے۔

۱۔ اَتُرِیۡدُوۡنَ: کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے خلاف اللہ کے پاس حجت و دلیل آجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ حجت پوری کرنے سے پہلے عذاب نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ قرآن میں جہاں بھی سلطان کا لفظ استعمال ہوا ہے، وہ حجت و دلیل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چونکہ جس کے ہاتھ میں دلیل ہو گی، وہ بالا دست ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کافر کی حمایت میں جانے سے اس بات پر دلیل مکمل ہو جاتی ہے کہ یہ اہل ایمان میں نہیں ہے۔


آیت 144