وَ کَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَ قَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّ اَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور دیا ہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے سے مباشرت کر چکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد و قرار لے چکی ہیں؟

20۔21۔ ایک شخص محض اپنی خواہشات کی بنا پر اپنی موجودہ بیوی کو طلاق دے کر دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے، اس صورت میں اگر وہ اپنی زوجہ کو حق مہر میں مال دے چکا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ یہ پورا مال یا اس میں سے ایک حصہ طلاق کے معاوضہ میں واپس لے لے۔

دوسری آیت میں فرمایا حق مہر واپس لینا اس لیے جائز نہیں ہے کہ تم نے آپس میں ازدواجی مباشرت کی ہے اور عورت نے اپنے وجود کو تمہارے حوالہ کیا ہے اور تم نے آپس میں عقد و پیمان کیا ہے۔

وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقۡتًا ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں مگر جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، یہ ایک کھلی بے حیائی اور ناپسندیدہ عمل ہے اور برا طریقہ ہے۔

22۔ زمان جاہلیت میں کچھ لوگ سوتیلی ماؤں سے شادیاں کر لیا کرتے تھے۔ گو کہ یہ عمل اس وقت بھی لوگوں کی نظر میں مبغوض تھا۔ چنانچہ اسے نکاح المقت کہتے تھے۔ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ سے نزول حکم سے قبل کا حکم بیان فرمایا کہ اس سے پہلے جو اس قسم کی شادیاں ہو چکی ہیں، ان سے درگزر کیا جاتا ہے۔ باپ کی منکوحہ سے شادی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ خواہ باپ نے اس عورت سے مباشرت کی ہو یا نہ کی ہو۔ لہٰذا اگر باپ نے کسی عورت سے صرف عقد ہی کیا ہے اور مباشرت نہیں کی تو بھی وہ عورت بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر باپ نے کسی عورت سے نا جائز تعلق قائم کیا ہو اور حرام طور پر مقاربت کی ہو تو وہ عورت بھی اس کے بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔

حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمۡ اُمَّہٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ وَ عَمّٰتُکُمۡ وَ خٰلٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُ الۡاَخِ وَ بَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیۡۤ اَرۡضَعۡنَکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَ اُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمۡ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ ۫ فَاِنۡ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ ۫ وَ حَلَآئِلُ اَبۡنَآئِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِکُمۡ ۙ وَ اَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخۡتَیۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں، تمہاری بھانجیاں، تمہاری وہ مائیں جو تمہیں دودھ پلا چکی ہوں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں اور جن بیویوں سے تم مقاربت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں رہی ہوں، لیکن اگر ان بیویوں سے (صرف عقد ہوا ہو) مقاربت نہ ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کا باہم جمع کرنا، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

23۔ آیت میں تو صرف رضاعی ماؤں اور بہنوں کا ذکر ہے۔ لیکن فریقین نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کو ماخذ قرار دیا ہے: ان اللّہ حرم من الرضاعۃ ما حرم من نسب (مستدرک الوسائل 14 : 336۔ صحیح البخاری کتاب النکاح۔ عبارت وسائل کی ہے۔) یعنی اللہ نے جس چیز کو نسب کے رشتے سے حرام قرار دیا ہے، رضاعت کے رشتے سے بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ عورت اس بچے کی ماں، اس کا شوہر اس بچے کا باپ، اس کی اولاد اس بچے کے بہن بھائی، اس کی بہنیں اس بچے کی خالائیں بن جاتی ہیں اور اس کے شوہر کی بہنیں اس بچے کی پھوپھیاں بن جاتی ہیں۔

وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ۚ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ۚ وَ اُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ مُّحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ ؕ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا تَرٰضَیۡتُمۡ بِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡفَرِیۡضَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور شوہر دار عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں، (یہ) تم پر اللہ کا فرض ہے اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لا سکتے ہو بشرطیکہ (نکاح کا مقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو، پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس کی رضا مندی سے (مہر میں کمی بیشی) کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،یقینا اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

24۔ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ : یہ آیت متعہ مشہور ہے جس میں متعہ کی تشریع کا نہیں، بلکہ پہلے سے تشریع شدہ متعہ کے مہر کا حکم بیان ہو رہا ہے۔

عقد متعہ سے منکوحہ عورت شرعاً زوجہ شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ عصر رسالت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں جب متعہ بالاجماع جائز اور رائج تھا تو اس وقت اس کو زوجہ شمار کیا گیا، جبکہ مملوکہ کنیز کا ذکر زوجہ کے مقابلہ میں آیا ہے۔ چنانچہ مکہ میں نازل ہونے والے سورﮤ مؤمنون آیت 5، 6 میں فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾ اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ... ۔ مؤمن اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھتے ہیں سوائے اپنی زوجات اور کنیز کے۔ ظاہر ہے کہ متعہ کی عورت یقینا کنیز نہیں ہے۔ اگروہ زوجہ بھی نہیں ہے تو یہ تیسری عورت ہو گئی، جبکہ نکاح متعہ عہد رسالت میں بالخصوص مکی زندگی میں (بعض کے نزدیک جنگ خیبر اور بعض کے نزدیک فتح مکہ تک) جائز اور رائج تھا، تو اگر عقد متعہ کی عورت زوجہ نہیں ہے تو تیسری قسم کی عورت کے عنوان سے اس کا ذکر آیت میں ضرور آتا۔ چنانچہ امام قرطبی، اپنی تفسیر 5 : 132 میں لکھتے ہیں: لم یختلف العلماء من السلف و الخلف ان المتعۃ نکاح الی اجل لامیراث فیہ۔ علمائے سلف اور بعد کے علماء کو اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ متعہ ایک مدت کا نکاح ہے، البتہ اس میں زوجین کے لیے میراث نہیں ہوتی۔

اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے حضرت ابن عباس، عمران بن حصین، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود نے روایت کی ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ ائمہ و اصحاب و تابعین حلیت متعہ کے قائل تھے: ٭ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ٭ ابن عباس ٭ عمران بن حصین ٭جابر بن عبد اللہ انصاری ٭ عبداللہ بن مسعود ٭ عبداللہ بن عمر ٭ ابوسعید خدری ٭ ابی بن کعب ٭ ابوذر غفاری ٭ زبیر بن عوام ٭ اسماء بنت ابی بکر ٭ سمرہ بن جندب ٭ سلمہ بن امیہ ٭ معبد ابن امیہ ٭ خالد بن مہاجر ٭ ربیعہ بن امیہ۔

ایک قراءت اس آیت کی یہ ہے: فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن یعنی پھر جن عورتوں سے ایک مقررہ مدت تک تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو۔ اس قراءت کو ابن عباس، ابی بن کعب، حبیب بن ثابت، سعید بن جبیر، سدی اور عبد اللہ بن مسعود نے اختیار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو روح المعانی 5 : 5، تفسیر طبری 5 : 9، تفسیر کشاف، قرطبی، شرح صحیح مسلم نووی 9 : 181 وغیرہ۔ حضرات ابن عباس، ابی بن کعب اور عبد اللہ مسعود جیسے معلمین قرآن کی قراءت کو شاذہ نہیں کہا جا سکتا۔ غیر امامیہ علماء کا یہ مؤقف ہے کہ قراءت شاذہ کے مطابق نماز میں قرآن کی تلاوت درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قراءت شاذہ سے قرآن ثابت ہو جاتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود متعہ پر پابندی کیوں لگی ہے؟ یہ جاننے کے لیے صحیح مسلم، باب نکاح المتعۃ کا مطالعہ کافی ہے۔

وَ مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِکُمۡ ؕ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذۡنِ اَہۡلِہِنَّ وَ اٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَیۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ ۚ فَاِذَاۤ اُحۡصِنَّ فَاِنۡ اَتَیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیۡہِنَّ نِصۡفُ مَا عَلَی الۡمُحۡصَنٰتِ مِنَ الۡعَذَابِ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ الۡعَنَتَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ اَنۡ تَصۡبِرُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۲۵﴾

۲۵ ۔ اور اگر تم میں سے کوئی مالی رکاوٹ کی وجہ سے آزاد مسلم عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو (اسے چاہیے کہ) وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈی سے نکاح کرے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے، تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا حصہ ہو لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو اور شائستہ طریقے سے ان کے مہر ادا کرو وہ نکاح کے تحفظ میں رہنے والی ہوں بدچلنی کا ارتکاب کرنے والی نہ ہوں اور درپردہ آشنا رکھنے والی نہ ہوں، پھر جب وہ (کنیزیں) نکاح میں آنے کے بعد بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کے لیے اس سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے، یہ اجازت اسے حاصل ہے جسے (شادی نہ کرنے سے) تکلیف اور مشقت کا خطرہ لاحق ہو، لیکن صبر کرنا تمہارے حق میں زیادہ اچھا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا،رحم کرنے والا ہے۔

یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۶﴾

۲۶۔اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (اپنے احکام) کھول کھول کر بیان کرے اور تمہیں گزشتہ اقوام کے طریقوں پر چلائے نیز تمہاری طرف توجہ کرے اور اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

26۔ اللہ تعالیٰ انسانی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق احکام بیان فرمانے کے بعد یہ باور کراتا ہے کہ یہی سلف صالح انبیاء و مرسلین کا طریقہ حیات اور طرز زندگی ہے، جس پر چل کر توجہات الٰہی کے سزاوار بن سکتے ہیں۔

وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اللہ (اپنی رحمتوں کے ساتھ) تم پر توجہ کرنا چاہتا ہے اور جو لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑی بے راہ روی میں پڑ جاؤ ۔

27۔ 28۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسے طریقے بتا دیے جن سے اس کی خواہشات بھی پوری ہو جاتی ہیں اور نسل بھی محفوظ رہتی ہے۔ اللہ نے ان خواہشات کو روکنے کا حکم نہیں دیا بلکہ انہیں پورا کرنے کے آسان طریقے بیان فرمائے، اس کمزور اور ناتواں انسان سے بوجھ ہلکا کر دیا۔

یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّخَفِّفَ عَنۡکُمۡ ۚ وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھایا کرو مگر یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کرو ( تو کوئی حرج نہیں ہے) اور تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔

وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ عُدۡوَانًا وَّ ظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۳۰﴾

۳۰۔اور جو شخص ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا ہم اسے (جہنم کی) آگ میں جھلسا دیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے۔