آیت 24
 

وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ۚ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ۚ وَ اُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ مُّحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ ؕ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا تَرٰضَیۡتُمۡ بِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡفَرِیۡضَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور شوہر دار عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں، (یہ) تم پر اللہ کا فرض ہے اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لا سکتے ہو بشرطیکہ (نکاح کا مقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو، پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس کی رضا مندی سے (مہر میں کمی بیشی) کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،یقینا اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

الۡمُحۡصَنٰتُ:

( ح ص ن ) الحصن سے ہے، جس کا معنی ہے محفوظ قلعہ۔ اسی سے عفیفہ عورت کو حصان کہتے ہیں۔ عورت نکاح کے حصار میں آنے کے بعد محصنہ کہلاتی ہے۔

السفاح:

( س ف ح ) مُسٰفِحِیۡنَ : زنا، بدکاری ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ: اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ سابقہ آیت میں مذکور عورتوں کے علاوہ شوہر دار عورتیں بھی تم پر حرام ہیں۔ ایک عورت کا ایک ہی شوہر ہو سکتا ہے۔

۲۔ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ: اس سے وہ شوہردار کافر عورتیں مستثنیٰ ہیں جو اسیر ہو کر مسلمانوں کے قبضے میں آ جاتی ہیں کہ اگر ان کے شوہر دار الحرب میں موجود ہوں تو ان کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس صورت میں حکومت ان کنیزوں کو اگر آزاد کر دے یا ان سے فدیہ لے یا انہیں مسلم قیدیوں کے تبادلے میں آزاد کر دے تو بھی درست ہے اور اگر ان کنیزوں کو سپاہیوں میں تقسیم کر دے تو اس صورت میں یہ سپاہی اس کنیز کا مالک بن جاتا ہے۔ اس صورت میں مالک اپنی کنیز کے ساتھ بعنوان مملوکہ مقاربت کر سکتا ہے، جیساکہ دوسری عورتوں سے بعنوان عقد نکاح مقاربت کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ عورتیں حلال ہیں۔ لیکن بطور حصان حلال ہیں، بطور سفاح حلال نہیں ہیں۔

مُّحۡصِنِیۡنَ: جب کوئی عورت کسی مرد کے عقد میں آ جاتی ہے تو وہ عورت دوسرے مردوں کے لیے حرام ہو جاتی ہے، چونکہ اب یہ عورت اپنے شوہر کے حصار حصان میں محفوظ ہو گئی ہے۔ عورت جب مرد کے نکاح میں آ جاتی ہے تو اس کی عفت کو تحفظ مل جاتا ہے۔ زن و شوہر کے تعلقات کو قانونی حیثیت مل جاتی ہے، اس سے نسوانی عفت و آبرو کو تحفظ مل جاتا ہے۔ یہ تعلقات ایک عہد و پیمان اور ذمہ داری و مسؤلیت کی بنا پر قائم ہوئے ہیں نیز ان تعلقات کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہو گی، اسے بھی حسب و نسب کے حوالے سے تحفظ حاصل ہو گا۔ لہٰذا بعض معاصر حضرات کا یہ کہنا کہ متعہ میں تحفظ نہیں ہے، لہٰذا حصان کی شرط سے متعہ کی نفی ہوتی ہے ‘‘ (تدبر قرآن ۲ :۲۷۸) محض عصبیت پر مبنی تفسیر بالرائے ہے کیونکہ متعہ میں بھی:

i۔ جب عورت کسی مرد کے عقد میں ہوتی ہے تو دوسرے مردوں پرحرام ہوتی ہے۔

ii۔ آپس کے تعلقات کو قانونی عہد و پیمان کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

iii۔ ان تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو بھی حسب و نسب کے حوالے سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

iv۔ اس عقد میں مال یعنی حق مہر کا ذکر بھی ضروری ہے۔

بہتر ہے کہ عقد متعہ اور عقد دائمی میں مشترکہ امور پر ایک نظر ڈالیں:

عقد متعہ اور عقد دائمی کے مشترکہ امور: ۱۔ عقد ۲۔ حق مہر ۳۔ حق حصانت ۴۔ نشر حرمت ۵۔ عدت. تعجب کا مقام ہے کہ بعض معاصر حضرات نے نہایت غیرذمہ داری سے لکھا ہے کہ متعہ میں عدت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن سورہ مومنون و ڈاکٹر وھبہ الزجیلی تفسیر منیر ۵ :۱۳ میں۔ بھلا کوئی ایسا حکم ہو سکتا ہے جس میں تطہیر رحم کے بغیر اختلاط نسل کی اجازت دی گئی ہو یا کسی شخص نے آج تک ایسا فتویٰ دیا ہے؟

حضرت امام خوئی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اس جگہ ارشاد فرماتے ہیں: سبحانک اللّٰھم ۔ بار الٰہا! گواہ رہنا کہ شیعوں پر یہ کتنا بڑا الزام ہے۔ متقدمین اور متأخرین شیعہ فقہاء کی کتب قارئین کے سامنے ہیں۔ آج تک کسی شیعہ فقیہ کی طرف یہ قول منسوب نہیں ہے۔ یہ فتویٰ شاذ و نادر کے طور پر بھی فقہی کتب میں موجود نہیں، چہ جائیکہ یہ کوئی اجماعی مسئلہ ہو۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب شیعہ پر الزام لگانے والے داد گاہ الٰہی میں پیش ہوں گے۔ و ھنا لک یخسر المبطلون ۔ ۶۔ عقد کے لیے سببی و نسبی مانع نہ ہونا۔ ۷۔ اولاد کا وارث بن جانا۔ (عقد متعہ کی ان حدود و قیود کو دارمی نے اپنی سنن ۲: ۱۴۰، طبری نے اپنی تفسیر ۵: ۹ خازن نے اپنی تفسیر ۱: ۲۵۷ اور مسلم نے اپنی صحیح باب المتعہ میں ذکر کیا ہے۔ یہ وہی تحفظ ہے جودائمی عقد نکاح میں حاصل ہوتا ہے۔) ۸۔ ولی کی اجازت کی ضرورت: فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذۡنِ اَہۡلِہِنَّ ۔۔۔۔ (نساء : ۲۵)

عقد متعہ اور عقد دائمی میں فرق: i۔ مدت کا تعین ii۔ طلاق کی جگہ ابراء مدت یا مدت کا ختم ہو جانا iii۔ زوجین میراث نہیں لیتے۔

خلاصہ یہ کہ عورتیں اس صورت میں حلال ہیں کہ جب ان سے عہد و پیمان کریں اور ازدواجی تحفظ اور حقوق فراہم کریں۔ جس میں خاندان، گھر، بچوں، عزت و آبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ ہے۔

سفاح ۔ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ: مرد و عورت میں ایسے تعلقات کو سفاح کہتے ہیں، جس میں ایک دوسرے پر کوئی ذمہ داری اور مسؤلیت عاید نہیں ہوتی۔ صرف اور صرف شہوت رانی، وہ بھی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے۔ اس تعلق کے قائم ہونے سے پہلے کوئی عہد و پیمان ہے، نہ بعد میں۔جس میں نہ تو عورت کی عفت و عصمت کی کوئی قیمت اور قدر ہے اور نہ اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی کوئی ضمانت و کفالت ہے۔

فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ:

الف: یہ آیت، متعہ سے متعلق مشہور ہے، جس میں متعہ کی تشریع کا نہیں، بلکہ پہلے سے تشریع شدہ متعہ کے مہر کا حکم بیان ہو رہا ہے۔

ب: حرام عورتوں کے ذکر کے بعد فرمایا: ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں۔ ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لا سکتے ہو، بشرطیکہ عقد کا مقصد عفت قائم رکھنا ہو، بے عفتی نہ ہو۔ اس پر ایک فرع، یعنی متعہ کا ذکر فرمایا: پس جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے، ان کا طے شدہ مہر بطور فرض اد اکرو۔

ج: عقد دائمی کے حق مہر کا ذکر سورہ بقرہ آیت ۲۳۷ میں آ چکا ہے۔ اس آیت میں عقد متعہ کے طے شدہ مہر کا ہی ذکر ہے۔

د: ان آیات کا نزول ہجرت کے بعد مدنی زندگی کے اوائل میں ہوا ہے۔ چنانچہ جنگ احد کے بعد میراث کے احکام نازل ہوئے اور سنہ چار ہجری میں بنی نضیر کا اخراج عمل میں آیا اور پانچ ہجری میں تیمم کا حکم آیا ۔ لہٰذا لازمی طور پریہ آیت بھی مدنی ہے۔

ھ: جنسی خواہش ایک فطری اور انسانی ضرورت ہے۔ یہ کوئی نامناسب عمل نہیں ہے، جیسا کہ عیسائیت کے ہاں تصور ہے۔ اسلام نے اسے ایک پاکیزہ عمل قرار دیا ہے اور اس کے لیے قوانین، احکام اور آداب بیان کیے ہیں۔

یہ بیالوجیکل اعتبار سے بھی جسم کی ایک اہم ضرورت ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسے بیرونی دباؤ کے ذریعے روکنا صحت اور فکری اعتبار سے بہت سے مضرات کا سبب بن جاتا ہے۔ اسے دبانے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں۔

حضرت ابن عباس نے درست فرمایا:

ما کانت المتعۃ الا رحمۃ من اللہ رحم بھا امۃ محمد لو لا نہی عمر مازنی الاشقی ۔ (نہایۃ المجتھد ۲:۵۷۔ تفسیر قرطبی ۵ :۱۳۰۔ تفسیر سمرقندی ۱ :۳۴۶)

امت محمد (ص) کے لیے متعہ اللہ کی طرف سے ایک رحمت تھا۔ اگر حضرت عمر اسے ممنوع قرار نہ دیتے تو شقی کے سوا کوئی زنا نہ کرتا۔

عقد متعہ سے منکوحہ عورت، زوجہ شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ رسالت مآب (ص) کے عہد میں جب متعہ جائز اور رائج تھا تو اس کا ذکر زوجہ کے مقابلے میں نہیں ہوتا تھا، جیسا کہ مملوکہ کنیز کا ذکر آتا ہے، بلکہ اسے ازواج میں شامل رکھا گیا۔ چنانچہ مکہ میں نازل ہونے والے سورۂ مومنون میں فرمایا:

اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ ۔۔۔۔ (۲۳ مومنون:۶)

سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں ۔۔۔۔

ظاہر ہے کہ متعہ کی عورت کنیز یقینا نہیں ہے، تو اگر زوجہ بھی نہیں ہے تو یہ تیسری قسم کی عورت ہو گئی جس سے زمان رسالت مآب (ص) اور بالخصوص مکی زندگی میں (بعض کے نزدیک جنگ خیبر تک اور بعض کے نزدیک فتح مکہ تک) جنسی تعلقات استوار کرنا جائز اور رائج تھا، لہٰذا اس کا ذکر آیت میں ضرور آتا۔ چنانچہ امام زمخشری نے کشاف ۳: ۲۶ میں تسلیم کیا ہے کہ متعہ ازواج میں شامل ہے۔ قرطبی نے اپنی تفسیر ۵: ۱۳۲ میں لکھا ہے:

لم یختلف العلماء من السلف و الخلف ان المتعۃ نکاح الی اجل لا میراث فیہ۔

قدیم اور بعد کے تمام علماء نے اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کیا ہے کہ متعہ، نکاح کی ایک قسم ہے جو معین مدت کے لیے ہوتا ہے، جس میں میراث نہیں ہے۔

مقام تعجب تو یہ ہے کہ اہل سنت کے معتدبہ مفسرین نے کہا ہے کہ سورۂ مومنون کی اس آیت سے متعہ کا حکم منسوخ ہو گیا ہے۔ یعنی وہ حکم جو فتح خیبر یا فتح مکہ تک جائز اور رائج رہا، وہ بہت پہلے مکہ میں نازل ہونے والی ایک آیت کے ذریعے منسوخ ہو گیا ہوا تھا، تو اب بتائیں کہ کیا رسالتمآب (ص) اللہ کی منشا کے خلاف حرمت متعہ کے خلاف تھے؟ جنہوں نے متعہ کو منسوخ ہونے کے باوجود رائج رکھا یا یہ مفسرین اللہ اور رسول (ص) کی منشا کے خلاف حلیت متعہ کے خلا ف ہیں؟

اصحاب رسول (ص) کی ایک معتدبہ تعداد نے روایت کی ہے کہ یہ آیت، متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے:

i۔ ابن عباس۔ تفسیر طبری ۵: ۹۔ احکام القرآن جصاص ۲: ۱۷۸ ۔

ii۔ عمران بن حصین ۔ مسند احمد ۴: ۴۳۶۔ صحیح بخاری ج ۲

iii۔ ابی بن کعب۔ احکام القرآن جصاص ۲ : ۱۷۸

iv۔ عبد اللہ بن مسعود۔ شرح صحیح مسلم نووی ۹: ۸۱

تابعین میں سعید بن جبیر، قتادہ، مجاہد، سدی الحکم، شعبہ اور ابو ثابت حلیت متعہ کے قائل تھے اور اس آیت سے استدلال کرتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد متعہ کے بارے میں کیا موقف تھا؟ اس سلسلے میں ہم قدرے تفصیل سے وہ مراحل بیان کریں گے، جن سے یہ مسئلہ گزرا ہے:

اصحاب رسول بعد از وفات رسول (ص): اس مرحلے میں آپ مطالعہ فرمائیں گے کہ امت محمدیہ میں حلیت متعہ کے بارے میں کوئی اختلاف نہ تھا اور سب اس کی حلیت کے قائل تھے۔ جن اصحاب کے اسمائے گرامی ہم تک پہنچے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

i۔ امیر المومنین علیہ السلام کا یہ فرمان مشہور ہے: اگر عمر نے متعہ کو ممنوع قرار نہ دیا ہوتا تو شقی کے سوا کوئی زنا نہ کرتا۔ ملاحظہ ہو کنز العمال ۸: ۲۹۴۔ البحر المحیط ۳: ۵۸۹۔

ii۔ ابن عباس: احکام القرآن جصاص، زاد المیعاد ابن قیم وغیرہ ۔ صحیح مسلم ۱: ۴۶۷ میں آیاہے:

کان ابن عباس یأمر بالمتعۃ

ابن عباس متعہ کے حکم دیا کرتے تھے۔

کنزالعمال میں عروۃ بن زبیر کی روایت میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا:

الا للعجب انی احدثہ عن رسول اللہ و یحدثنی عن ابی بکر و عمر ۔

تعجب کا مقام ہے کہ حلیت متعہ کے بارے میں، میں رسول اللہ (ص) کی حدیث بیان کرتا ہوں، یہ لوگ ابوبکر و عمر کی باتیں سناتے ہیں۔

نیز عطا نے ابن عباس سے نقل کیاہے کہ وہ کہتے تھے:

ما کانت المتعۃ الا رحمۃ رحم بھا ھذہ الامۃ لو لا نہی عمر عنھا ما زنی الا شقی ۔ (ملاحظہ ہو تفسیر سمرقندی ۱ :۳۴۶)

امت محمد (ص) کے لیے متعہ اللہ کی طرف سے ایک رحمت تھا۔ اگر (حضرت) عمر اسے ممنوع قرار نہ دیتے تو شقی کے سوا کوئی زنا نہ کرتا۔

iii۔ عمران بن حصین خزاعی: ہم نے رسول خدا (ص) کے زما نے میں متعہ کیا۔ پھر قرآن میں اس کے بارے میں کوئی اور حکم نازل نہیں ہوا۔ ایک شخص نے اپنی ذاتی رائے سے جو جی میں آیا کہدیا۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری ۲: ۱۷۶۔ صحیح مسلم ۲: ۹۰۰۔ سنن بیہقی ۵: ۲۰۔

iv۔ جابر بن عبد اللہ انصاری: صحیح مسلم ۲: ۱۰۲۲۔

v۔ عبد اللہ بن مسعود: صحیح مسلم ۲: ۱۰۲۲۔ صحیح بخاری ۸: ۷۔ کتاب النکاح۔

vi۔ عبد اللہ بن عمر: قسم خدا کی ہم عہد رسالت میں زنا کرنے والے تھے اور نہ بے عفتی کرنے والے۔ یعنی متعہ جائز نکاح ہے۔ ملاحظہ ہو مسند احمد ۲ : ۹۵۔

vii۔ ابو سعیدخدری : ہم نے خلافت عمر کی نصف مدت تک متعہ کیا۔ عمدۃ القاری عینی ۸:۳۱۰

viii۔ ابی بن کعب: تفسیر طبری۵: ۹۔

ix۔ ابوذر الغفاری : زاد المعاد ابن قیم ۱: ۲۰۷۔ صحیح مسلم ۲: ۸۹۷۔

x۔ زبیر بن عوام: عبد اللہ بن زبیر نے ابن عباس کو حلیت متعہ کا طعنہ دیا تو ابن عباس نے کہا: تم اپنی والدہ سے پوچھو۔ چنانچہ پوچھنے پر اس کی والدہ اسماء بنت ابی بکر نے کہا:

ما ولدتک الا فی المتعۃ ۔

تجھے میں نے عقد متعہ ہی سے جنا ہے۔

عقد الفرید ۲: ۱۳۹۔

xi۔ اسماء بنت ابی بکر: سند ابو داؤد طیالسی صفحہ ۲۲۷۔ عقد الفرید ۲: ۱۳۹۔

xii۔ سمرۃ ابن جندب یا سمیر بن جندب: الاصابۃ ۲: ۸۱۔

xiii۔ معاویہ بن ابی سفیان: ابن حزم نے المعلی میں اور زرقانی نے شرح موطا میں ذکر کیا ہے۔

xiv۔ سلمہ بنت امیہ: الاصابۃ ۲: ۶۳۔

xv۔ معبد بن امیہ: زرقانی شرح موطا۔

xvi۔ خالد بن مہاجر مخزومی: صحیح مسلم ۱ ۳۹۶

xvii۔ ربیعہ بن امیہ: موطا امام مالک ص ۳۶۹۔ امام شافعی کتاب الأم ۷: ۲۱۹۔ بیہقی ۷:۲۱۶

تابعین:

xviii۔ سعید بن جبیر: تفسیر شوکانی ۱: ۴۷۴۔

xix۔ طاؤس یمانی: ابن حزم المعلی۔

xx۔ عطا مدنی: صحیح مسلم ۲: ۱۰۲۳۔

xxi۔ سدی: تفسیر ابن کثیر۱: ۴۷۴۔

xxii۔ مجاہد: تفسیر ابن کثیر ۱: ۴۷۴۔

xxiii۔ زفر بن اوس مدنی: البحر الرائق لابن نجم۔

xxiv۔ حکم: تفسیر طبری ۵: ۹۔

xxv۔ عمرو بن حریث قرشی: کنز العمال ۸: ۲۹۳۔

مذاہب اربع میں سے امام مالک بھی بنا بر قولے متعہ کی حلیت کے قائل تھے۔ ملاحظہ ہو تبیان الحقائق شرح کنز الدقائق ۔ مجمع الانہر ۱: ۲۷۱۔ المبسوط سرخسی۔ فتاویٰ الفرغانی۔ الکافی فی الفروع الحنفیہ۔ العنایہ فی شرح الہدایہ۔ الہدایہ فی شرح البدایہ و غیرھا ۔

ان کے علاوہ ابن جریح فقیہ مکہ نے خود ۹۰ عورتوں سے متعہ کیا۔ تہذیب التہذیب ۶: ۴۱۶۔

عبد الملک بن عبد العزیز مکی۔ فقہائے مکہ۔ اصحاب ابن عباس اہل مکہ و اہل یمن۔ ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی ۵: ۱۳۲۔ الاستیعاب۔

ابو حیان اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: اہل بیت (ع) اور تابعین کی ایک جماعت حلیت متعہ کی قائل رہی ہے۔ البحر المحیط ۳: ۵۸۹۔ امام احمد بن حنبل اضطراری حالت میں متعہ کوجائز کہتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر ۱: ۴۷۴۔

آیت متعہ کی ایک قراءت الی اجل مسمی: درج ذیل اصحاب و معلمین قرآن نے اس آیت کی یہ قراءت اختیار کی ہے جس سے اس آیت سے حکم متعہ اور واضح ہوکر سامنے آتا ہے۔ وہ قرآئت یہ ہے:

فما استمتعتم بہ منھن۔ الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن ۔

پھر جن عورتوں سے تم نے (ایک مقررہ مدت تک) متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو۔

اس قرائت کے مطابق الی اجل مسمی ۔ ’’ ایک مقررہ مدت تک ‘‘ آیت کا حصہ ہے۔

اس قرائت کو حضرت ابن عباس، ابی بن کعب، حبیب بن ثابت، سعید بن جبیر، سدی، عبد اللہ بن مسعود نے اختیار کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو روح المعانی ۵: ۵۔ تفسیر طبری ۵: ۹۔ بیہقی۔ کشاف۔ تفسیر قرطبی۔ نووی ۔ شرح صحیح مسلم ۹:۱۸۱ و غیرہ۔

اسے قرائت شاذہ کر کے مسترد کرتے ہیں، جب کہ حضرت ابن عباس، ابی بن کعب، عبد اللہ بن مسعود جیسے معلمین قرآن کی اختیار کردہ قرائت کو شاذہ قرار دینا بھی نہایت ناانصافی ہے۔

ان تمام شواہد کا مطالعہ کرنے کے بعد تدبر قرآن ج ۲ ص ۲۷۸ کے مؤلف کی اس عبارت کو پڑھ لیجیے:

اگر کوئی شخص کسی عورت سے ایک وقتی اور عارضی تعلق پیدا کرتا ہے تو گو اس کے لیے اس نے نکاح کی رسم بھی پوری کی ہو اور اسے مال بھی دیا ہو لیکن یہ احصان نہیں ہوا۔ یہ محض پیشاب کرنے کے لیے ایک پیشاب خانہ تلاش کیا گیا ہے، جس سے مقصود محض وقتی طور پر مثانے کے بوجھ کو ہلکا کر لینا ہے۔ قرآن نے یہ شرط لگا کر متعہ کے اس مکروہ رواج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جو جاہلیت میں رائج تھا۔

دیکھ لیجیے! یہ لوگ اسلامی تعلیمات کے بیان میں کس قدر امین ہیں۔ متعہ کو جاہلیت کے مکروہ رواج بتا کر اپنی امانت پر کس احسن انداز میں ضرب لگائی ہے۔ کیا امت قرآن ایسے امینوں سے کسی اصلاحی تحریر کی امید رکھ سکتی ہے ؟

جابر نقل کرتے ہیں: تمام اصحاب رسول (ص)، رسول اللہ (ص) اور حضرت ابوبکر کی زندگی میں اور حضرت عمر کی خلافت کے آخری دنوں تک متعہ کو حلال کہتے تھے۔ (ابن حزم المحلی)۔

نسخ: اس بات پر تو تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ عصر رسالت (ص) میں متعہ حلال اور رائج تھا اور اس آیہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے اور حضرت عمر کی طرف سے ممنوع ہونے کے بعد یہ دعویٰ شروع ہو گیا کہ آیت متعہ منسوخ ہو گئی اور اس سلسلے میں آنے والے متضاد اقوال کی تعداد ۲۲ اقوال تک پہنچ چکی ہے: خیبر کے روز منسوخ ہوا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر منسوخ ہوا۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر۔ اوطاس کے موقع پر۔ فتح مکہ کے موقع پر۔ تین مرتبہ حلال کیا گیا اورتین مرتبہ حرام گردانا گیا۔ سات مرتبہ حلال کیا اور سات مرتبہ حرام گردانا گیا۔ عصر رسالتؐ میں متعہ حلال اور رائج ہونا مسلمہ ہونے کے باوجود ہمارے کچھ معاصر اہل قلم نے تو یہاں تک جسارت کر دی کہ یہ جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ محض زنا ہے۔ (نہ مصادر تشریح کا علم، نہ اپنے فقہی قواعد سے آگاہ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنی محارم ماں، بیٹی اور بہن کے ساتھ عقد کر کے ہمبستری کرے تو یہ زنا نہیں ہے، اس پر حد جاری نہیں ہو گی۔ دلیل یہ پیش کرتے ہیں : لان صورۃ العقد شبہۃ ، کیونکہ عقد کی وجہ سے شبہ لاحق ہو گیا ۔ ملاحظہ ہو: المغنی ۱۰: ۴۹۔ المبسوط ۹: ۸۵۔ فتح القدیر ۵: ۳۵۔

متعہ نہ محارم ماں بیٹی کے ساتھ (نعوذ باللّٰہ ) عقد ہے، نہ زنا کے لیے کرایہ کی عورت کے ساتھ ہمبستری ہے، بلکہ جن عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے، ان عورتوں کے ساتھ ایجاب و قبول، مدت اور حق مہر کے تعین کے ساتھ ہونے والا ایک کامل عقد ہے۔) اسلام نے اس مکروہ رواج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا وغیرہ۔ (تدبر القرآن ۲ : ۲۷۸) شنشنۃ أعرفہا من احزم

نسخ متعہ ایک امر واقع نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تضاد اور اضطراب واقع ہوناایک طبعی امر ہے۔ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا ۔ (۴ نساء: ۸۲ ۔ اور اگریہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے) خلاصہ یہ کہ نسخ متعہ کے لیے قرآنی آیات اور احادیث کی نہایت ناقابل قبول توجیہ پیش کرنے کی دانستہ سعی کی گئی۔ مثلا :

i۔ آیہ اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ (۲۳ مومنون: ۶) سے متعہ کا حکم منسوخ ہو گیا، کیونکہ متعہ کی عورت منکوحہ زوجہ نہیں ہے۔

جواب: پہلے بھی ذکر ہوا کہ اس آیت کو ناسخ کے طور پر پیش کرنے والے یہ بھول گئے کہ یہ آیت بالاجماع مکی ہے، جب کہ مخالف بھی معترف ہے متعہ کم از کم فتح خیبر تک جائز اور رائج رہا

ہے، (مولانا مودودی تفہیم القرآن ۳: ۲۶۶ سورہ مومنون کے ذیل میں لکھتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکہ کے سال دیا ہے۔ اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔) بلکہ اس آیت سے تو بطور قطع و یقین ثابت ہوتا ہے کہ متعہ کی منکوحہ عورت ازدواج میں داخل ہے، کیونکہ نزول آیت کے موقع پر متعہ جائز اور رائج تھا اور آیت نے اسے ازواج میں شامل رکھا۔

ii۔آیۂ میراث سے متعہ کا حکم منسوخ ہو گیا، کیونکہ نکاح متعہ سے زوجین وارث نہیں بنتے۔

جواب:یہ آیت ارث سے مخصوص ہے۔ اس آیت کا عقد متعہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

iii۔ طلاق سے متعہ کا حکم منسوخ ہو گیا، کیونکہ عقد متعہ میں طلاق نہیں ہوتی۔

جواب:آیۂ طلاق، محل طلاق بیان نہیں کرتی کہ طلاق کہاں واقع ہوتی ہے اور کہاں واقع نہیں ہوتی۔

iv۔ سنت سے حکم متعہ منسوخ ہو گیا ہے۔ اس بارے میں چند روایات صحاح و غیر صحاح میں موجود ہیں۔

جواب: اولاً: خبر واحد سے حکم قرآن منسوخ نہیں ہو سکتا۔

ثانیاً: یہ روایات ان کثیر روایات کے ساتھ متصادم ہیں جو کہتی ہیں کہ متعہ خلافت عمر تک جائز اور رائج رہا۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ کی روایت، صحیح مسلم باب نکاح متعہ، مسند احمد بن حنبل، سنن بیہقی جلد ہفتم باب نکاح متعہ میں موجود ہے۔

صحیح مسلم میں عمران بن حصین سے روایت ہے:

قال نزلت ایۃ المتعۃ فی کتاب ﷲ تبارک و تعالیٰ و عملنا بھا مع رسول ﷲ فلم تنزل ایۃ تنسخھا و لم ینہ النبی عنھا حتی مات ثم قال رجل برأیہ ماشاء۔

آیت متعہ کتاب اللہ تبارک و تعالیٰ میں نازل ہوئی ہے اور ہم نے رسول اللہ ؐکے ساتھ اس پر عمل بھی کیا۔ اس کے بعد نہ تو کوئی ایسی آیت نازل ہوئی جو متعہ کو منسوخ کرے، نہ ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا، یہاں تک کہ آپ ؐ کا وصال ہو گیا۔ بعد میں ایک شخص نے اپنی مرضی سے جو چاہا کہدیا۔

عبد اللہ بن عباس کی روایت۔ احکام القرآن جصاص ۲:۱۴۷۔

عمران بن حصین کی روایت۔ مسند احمد بن حنبل ۳ :۳۸۰۔

خود حضرت عمر کی روایت: متعتان کانتا علی عہد رسول اللہ انا احرمھما ۔ عہد رسالت میں دو متعہ حلال تھے، میں انہیں حرام کر رہا ہوں۔ احکام القرآن ۲: ۱۵۲۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان: اگر عمر متعہ کو ممنوع قرار نہ دیتا تو شقی کے سوا کوئی زنا نہ کرتا۔

کنزا لعمال ۸: ۲۹۴۔

کیا رسول اللہ (ص) جائز الخطا مجتہد ہیں؟ (معاذ اللہ): قوسچی حضرت عمر کے اس عمل کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اجتہادی اختلاف قرار دیتے ہیں اور یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے ساتھ اجتہادی اختلافات ہو سکتے ہیں۔ شرح تجرید باب الامامہ میں لکھتے ہیں:

رسول اللہ (ص) کے خلاف حضرت عمر کا فتویٰ کوئی قابل اعتراض بات نہیں، کیونکہ اجتہادی مسائل میں مجتہدین کا باہمی اختلاف کوئی نئی بات نہیں۔

یعنی ایک مجتہد (عمر) کے دوسرے مجتہد (رسول اللہؐ) سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس جگہ علامہ سید مرتضی عسکریٰ لکھتے ہیں:

یا ناعی الاسلام قم فانعہ

اے اسلام کے مرثیہ خواں اٹھ اسلام کا مرثیہ پڑھ۔

حالانکہ شیعہ سنی دونوں کا یہ متفقہ مؤقف ہے۔

لا اجتھاد عند ظہور النص

نص کی موجودگی میں اجتہاد جائز نہیں۔

اس کے باوجود امت کے ایک فرد کا مقابلہ وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی﴿﴾ (۵۳ نجم : ۳) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یعنی امت بذریعہ اجتہاد اپنے رسول(ص) کے خلاف جا سکتی ہے اور وہ بھی حلال و حرام اور تشریع احکام میں۔ اس طرح رسول (ص) ایک عام مجتہد کی طرح جائز الخطا غیر معصوم (معاذ اللہ) ہو کر رہ جاتا ہے۔ جی ہاں! یہاں صراحتاً کہا گیا ہے کہ رسول (ص) سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے۔ اگر علامہ آمدی کی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام ۴: ۲۲۲ میں اس بات کی صراحت موجود نہ ہوتی تو اپنے معصوم رسول (ص)کی طرف اس ناپاک نسبت پریقین نہ آتا۔

اسی طرح جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اموال کی تقسیم مساویانہ ہوتی تھی، لیکن حضرت عمر تقسیم اموال میں امتیاز کی روش اختیار کر کے مراعات یافتہ طبقہ وجود میں لائے، جس سے اسلامی معاشرہ بھی طبقاتی معاشرہ ہو گیا، تو یہی جواب دیا جاتا ہے۔ اجتہادی مسائل میں مجتہدین کا باہمی اختلاف کوئی نئی بات نہیں۔ ( ملاحظہ ہو قوسجی۔ شرح التجرید ص۴۰۸۔) واضح رہے شیعہ اپنے اماموں کو معصوم سمجھتے ہیں، مگر ان کو رسول اللہ ؐ کے خلاف حکم دینے کا حق نہیں دیتے، بلکہ رسول اللہ (ص) کے بیان کردہ احکام کو بیان کرنے میں معصوم سمجھتے ہیں۔ یعنی ان سے بیان احکام میں غلطی نہیں ہوتی۔

ابن حزم المحلی میں لکھتے ہیں:

لا خلاف بین احد من الامۃ فی ان عبدالرحمن بن ملجم لم یقتل علیا الامتأ ولاً مجتھداً مقدرا انہ علی صواب ۔

امت کے کسی فرد کو اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علیؑ کو تاویل و اجتھاد کے تحت یہ سمجھتے ہوئے قتل کیا کہ وہ اس اجتہاد میں صائب الرائے ہے۔

اور الفصل بین الملل و النحل میں یہی ابن حزم لکھتے ہیں:

قاتل عمار ابو الغادیۃ متأول مجتھد مخطی باغ علیہ ماجور اجراً واحداً، و لیس ھذا کقتلۃ عثمان لانہم لامجال لھم للاجتھاد فی قتلہ ۔

ابو الغاویہ عمار کا قاتل مجتہد ہے، اجتہاد میں غلطی کی، عمار کے خلاف بغاوت کا ارتکاب کیا، تاہم اس کو ایک اجر ملے گا۔ مگر عثمان کے قاتلین ایسے نہیں ہیں کیونکہ ان کے لیے قتل عثمان میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شیخ احمد وائلی اپنی کتاب من فقہ الجنس میں اس جگہ لکھتے ہیں:

ہم ابن حزم سے پوچھتے ہیں: وہ کون سی بات ہے جس نے ابن ملجم اور ابو الغاویۃ کو اجتہاد کا حق دیا اور ایک اجر بھی مل گیا۔ یعنی ابن ملجم کو حضرت علی علیہ السلام کے قتل کرنے کا ایک ثواب مل گیا اور ابو الغاویۃ کو حضرت عمار کے قتل کرنے کا ایک ثواب مل گیا اور ان اصحاب کو اجتھاد کا حق نہ دیا جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا ہے۔ اس امتیاز کا سبب کیا ہے؟ جبکہ حضرت عثمان کے قاتلین تو وہ اصحاب رسول ہیں جن کے گرد قداست کی ایک فصیل موجود ہے جسے کوئی پھلانگ نہیں سکتا۔ ان میں اصحاب بدر بھی ہیں۔ ان کو اجتہاد کی اجازت نہیں ہے، جب کہ حضرت علی علیہ السلام اور عمار کے قاتل ایسے بے حیثیت لوگ ہیں جن کو حق کی معرفت کے سلسلے میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے، مگر انہیں اجتہاد کا حق کیسے مل گیا!

یہ کہنا : ’’ حضرت عمر منع متعہ کے موجد نہیں تھے بلکہ شائع اور نافذ کرنے والے تھے ‘‘(تفہیم القرآن ۳ : ۲۶۶) درست نہیں ہے، کیونکہ یہ نہایت نامعقول ہے کہ حکم خدا و رسول (ص) پر عمل اور نافذ کرنا، عہد عمر کی نصف مدت تک مؤخر کر دیا گیا ہو۔

بعض اہل قلم حضرات اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ متعہ عہد رسالت میں رائج رہا اور متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکہ کے سال دیا گیا ہے اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن ۳ : ۲۶۶) اس تسلیم اور اعتراف کے باوجود لکھتے ہیں:

اس کے معنی یہ ہوئے کہ جواز کے لیے زنان بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ادنیٰ طبقہ معاشرے میں موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے یا یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا خوشحال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا و رسول (ص) کی شریعت سے اس طرح کے غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اور کیا خدا اور اس کے رسول (ص) سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی۔ (تفہیم القرآن ۳ : ۲۶۶)

تو کیا خدا اور رسول (ص) نے معاذ اللہ عہد رسالت (ص) میں بقول خود معترض، فتح مکہ تک ان غیر منصفانہ قوانین کو جاری و ساری رکھا؟ کیا رسول اللہ (ص)کے عہد زرین کے معاشرے میں زنان بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ادنیٰ طبقہ موجود تھا، جس سے تمتع کرنے کا درو ازہ کھلا رہے؟ آپ نے خدا اور اس کے رسول(ص) سے یہ امید کی، بلکہ مشاہدہ کیا کہ انہوں نے اپنے عہد میں ایسے فعل کو مباح کر دیا ہو جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی؟ اِنۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۭ بِہٰذَا ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (۱۰ یونس: ۶۸)۔ کیا تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل بھی ہے ؟ کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں؟)

اس مقام پر ہم تفہیم القرآن کی وہ عبارت نقل کرتے ہیں جو لونڈیوں سے شادی کرنے کے بارے میں حاصل آزادی پر ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ اس میں اس اعتراض کا جواب موجود ہے جو متعہ کے بارے میں تفہیم القرآن نے اٹھایا ہے۔ عربی محاورہ ہے: من فمک ادینک ۔ تیرے منہ سے تجھے رد کرتا ہوں۔

یہ آیت اس امر کی صراحت کررہی ہے کہ منکوحہ بیویوں کے علاوہ مملوکہ عورتوں سے بھی تمتع کی اجازت ہے اور ان کے لیے تعداد کی کوئی قید نہیں ہے۔ اسی مضمون کی تصریح سورۂ نساء آیت۳، سورۂ مومنون آیت۶ اور سورۂ معارج آیت۳۰ میں بھی کی گئی ہے۔ ان تمام آیات میں مملوکہ عورتوں کو منکوحہ ازواج کے بالمقابل ایک الگ صنف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے نیز سورۂ نساء کی آیت ۳ منکوحہ بیویوں کے لیے چار کی حد مقرر کرتی ہے، مگر نہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے مملوکہ عورتوں کے لیے تعداد کی حد مقرر کی ہے اور نہ دوسری متعلقہ آیات میں ایسی کسی حد کی طرف اشارہ فرمایا ہے بلکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپؐ کے لیے اس کے بعد دوسری عورتوں سے نکاح کرنا یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لانا تو حلال نہیں ہے، البتہ مملوکہ عورتیں حلال ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مملوکہ عورتوں کے معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی شریعت یہ گنجائش مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید خرید کر عیاشی کرنے کے لیے دیتی ہے۔ دراصل یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا، اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے تو یہ قانون کی گنجائشوں سے ناروا فائدہ اٹھانا ہے، جس کی ذمہ داری خود اسی شخص پر عائد ہوگی نہ کہ خدا کی شریعت پر۔ (تفہیم القرآن ج۴ ص ۱۱۹ حاشیہ ۹۴)

حرمت متعہ کی روایت حضرت علی (ع) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ یہ نسبت یقینا غلط ہے۔ کیونکہ اول تو روایات صحیحہ سے ثابت ہے کہ متعہ خلافت عمر تک رائج اور جائز تھا، ورنہ فتح مکہ تک صحیح احادیث سے ثابت ہے، پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضرت علی (ع) خیبر کے موقع پر حرمت متعہ کے قائل ہوں۔

نیز ابن عباس کے رجوع کا مسئلہ تو اس سے بھی واضح البطلان ہے۔کیونکہ ان کا رجوع آیہ اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ (۲۳ مومنون:۶)کے ذریعے منسوخ ہونے کے ساتھ مربوط گردانا گیا ہے اور ابن عباس کا حلیت متعہ کا مؤقف یقینا اس آیت کے نزول کے بعد بلکہ عصر رسالت (ص) کے بھی بعد عہد عمر میں سب کے لیے مشہور رہا ہے۔

یہ روایت بھی قابل قبول نہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر متعہ کو حرام کیا گیا۔ کیونکہ اس روایت میں کہا گیا ہے: رسول کریم (ص) نے رکن اور در خانہ کعبہ کے درمیان کھڑے ہو کر حرمت متعہ کا اعلان فرمایا۔ جب کہ اس کا راوی صرف ایک ہی آدمی ہے۔ یعنی اسے صرف سبرہ نے روایت کیا ہے تو نامعقول بات ہے کہ رسول خدا (ص) ایک حکم کا اعلان خانہ کعبہ کے بڑے اجتماع میں فرمائیں اور صرف سبرہ ہی سن سکا جب کہ ہزاروں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں سنا۔

اہل سنت کے ہاں موقت نکاح صحیح ہے: ڈاکٹراحمد وائلی نے اپنی کتاب من فقہ الجنس میں یہ عنوان باندھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہاں پیش کرتے ہیں:

بعض فقہائے اہل سنت عقد موقت کو صحیح سمجھتے ہیں، متعہ کے نام سے نہیں، بلکہ کسی اور عنوان کے تحت۔

ابن تیمیہ کہتے ہیں: امام احمد بن حنبل کے اصول و نصوص کے تحت شرط مقدم شرط مقارن کی طرح ہے، یعنی عقد معاملہ سے پہلے جو شرط لگائی جاتی ہے وہ بالکل اس شرط کی طرح ہے جو معاملہ کے ساتھ لگائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں: ان الشرط المقدم کالشرط المقارن ۔

ابن قیم جوزیہ بھی فرماتے ہیں: لا فرق بین الشرط المقدم و الشرط المقارن ۔

اس کلیہ کی روشنی میں درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ ہوں۔

۱۔ ابن قدامۃ المغنی میں لکھتے ہیں:

و ان تزوجھا بغیر شرط الا ان فی نیتہ طلاقھا بعد شہر او اذا انقضت حاجتہ فی ھذا البلد فالنکاح صحیح فی قول عامۃ اہل العلم الا الاوزاعی قال: انہ نکاح متعۃ و الصحیح انہ لابأس بہ ولا تضر نِیّتہ ۔ (المغنی ۶:۶۴۵)

اگر عورت سے بغیر شرط کے شادی کرے اور اس کی نیت میں یہ ہو کہ اسے ایک ماہ بعد طلاق دی جائے گی یا جب اس مہینے میں اس عورت کی ضرورت نہ رہے تو طلاق دے دوں گا تو نکاح تمام اہل علم کے نزدیک صحیح ہے سوائے اوزاعی کے۔ انہوں نے کہا ہے: یہ نکاح متعہ ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح ہے اور نیت میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۲۔ الباجی الاندلسی المالکی اپنی کتاب المنتقی میں لکھتے ہیں:

من تزوج امرأۃ لا یرید امساکھا و انما یرید ان یستمتع بھامدۃ ثم یفارقھا فقد روی محمد عن الامام مالک ان ذلک جائز وان لم یکن من الجمیل ۔

کسی عورت سے ازدواج کر لیا جائے، جس کو ہمیشہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ صرف ایک مدت اس سے تلذذ حاصل کر کے اس سے جدا ہونا چاہتا ہے تو محمد نے امام مالک سے روایت کی ہے، یہ عقد جائز ہے اگرچہ یہ زیبا نہیں ہے۔

۳۔ عبدالرحمن الجزیری اپنی کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ میں فقہ مالکی کا مؤقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولا یتحقق نکاح المتعۃ الا اذا اشتمل علی ذکر الاجل صراحۃ للولی او للمرأۃ اولھما فان لم یذکر قبل العقد اولم یشترط فی العقد لفظا ولکن قصدہ الزوج فی نفسہ فانہ لایضر ولوفہمت المرأۃ او ولیھا ذلک ۔

نکاح متعہ اس وقت تک وقوع پزیر نہیں ہوتا جب تک مدت کا ذکر صراحت کے ساتھ نہ ہو۔ یہ صراحت ولی کے سامنے کرے یا عورت کے یا دونوں کے اور اگر عقد سے پہلے مدت کا ذکر نہ ہو اور نہ ہی عقد کے اندر لفظوں میں اس کا ذکر ہو بلکہ شوہر اپنے ذہن میں مدت کے تعین کا قصد کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ عورت یا اس کے ولی کو اس کا علم ہو جائے۔

اس مسئلے پر احناف کی رائے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اذانوی معاشرتھا مدۃ و لم یصرح بذلک فان العقد صحیح ۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۴: ۹۴)

اگر عورت سے ایک مدت کے لیے مباشرت کرنے کی نیت کر لے اور اس کی صراحت نہ کرے تو عقد صحیح ہے۔

ڈاکٹر عبد العزیز اپنی کتاب الانکحۃ الفاسدہ (۲: ۶۴۴) میں اس عنوان کے تحت ’’ موقت نکاح اس وقت صحیح ہے اگر وقت کا تعین نیت میں ہو، لفظوں میں نہ ہو ‘‘ لکھتے ہیں:

و علی ذلک فان النکاح بصیغتہ الصحیحۃ المشروعۃ وبلفظہ الظاھر المطلق انہا یقع صحیحا وان کان المتعا قدان اواحدھما یقصد بالزواج مدۃ معینۃ او مجرد الاستمتاع الی اجل من الآجال یخفیہ فی نفسہ ۔

پس بنا برایں عقد نکاح اپنے صحیح اور شرعی صیغے اور اپنے ظاہری اطلاق کے ساتھ صحیح واقع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ عقد کے طرفین یا ایک طرف اس عقد میں ایک معین مدت کا قصد کریں یا ایسی کوئی مدت تک لذت حاصل کرنا مقصود ہو جس کو وہ اپنے دل میں چھپائے رکھتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب نے اس فتویٰ کو درج ذیل کتابوں سے نقل کیا ہے۔

شوکانی: نیل الاوطار ۶: ۱۵۴ ط مصر

شیخ عیش: فتح العلی صفحہ ۴۱۵ ط مصر

ابن قدامۃ: المغنی ۶: ۶۴۵ ط دارالکتب

الشافعی: الأم ۵: ۷۱ط بیروت

آگے وہ اس مسئلے پر قاضی عیاض کا فتویٰ نقل کرتے ہیں:

اگر کوئی شخص کسی شہر میں وارد ہو جائے اور وہاں کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنا چاہے اور دونوں کی یہ نیت ہو کہ یہ نکاح صرف اس شہر میں قیام کی مدت تک کے لیے ہو یا ہفتہ دو ہفتے کے لیے ہو یا اس سے زیادہ تو نکاح ثابت ہے۔ (الانکحۃ الفاسدۃ ۲ :۶۴۵)

نکاح اجارہ: بعض اہل سنت کے فقہاء میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ لفظ اجارہ کے ساتھ عقد نکاح ہو سکتا ہے۔ اس مؤقف پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرآن میں عورت کے حق مہر کو اُجرت کہا گیا ہے: فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ۔ ظاہر ہے اجرت اجارے کے لیے کہا جاتا ہے، جیسا کہ بیع میں قیمت کہا جاتا ہے۔

چنانچہ اس نظریے کو علامہ کرخی حنفی، ابن خویز مالکی نے اختیار کیا ہے اور ابن العربی نے بھی اس نظریے کی طرف رجحان کا اظہار کیا ہے۔ ( تفسیر القرطبی ۱۳: ۲۷۳)

ابوبکر رازی نے یہ کہکر اس نظریے کو رد کیا کہ اجارہ ایک موقت معاملہ ہے، جب کہ نکاح ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کے منافی ہیں۔

ابوبکر رازی کا رد بتاتا ہے نکاح اجارہ عیناً نکاح موقت ہے۔

اخیراً مصر کے اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کے حقیقی بھائی جمال البنا نے اپنی کتاب مسؤلیۃ فشل الدولۃ الاسلامیۃ میں متعہ کو جائز اور مسلم اقلیتوں کے لیے اس کو ضروری قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان ملکوں میں طلاق کی صورت میں عورت مرد کی دولت میں شریک ہو جاتی ہے اور متعہ نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ متعہ جو صدر اسلام میں حضرت عمر کے دور تک حلال تھا، رائج ہونا چاہیے۔ البتہ الازہر نے اس کتاب کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ( ہفت روزہ بینات بیروت عدد ۷۷۔ ۳۷، اگست ۲۰۰۴)


آیت 24