آیت 29
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھایا کرو مگر یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کرو ( تو کوئی حرج نہیں ہے) اور تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ: شریعت کی نظرمیں باطل اس عمل کو کہتے ہیں جس میں کوئی معقول مفاد نہ ہو۔ جس عمل میں فرد اور معاشرے کے لیے اصولاً مصلحت نہ ہو، وہ باطل ہے۔ باطل طریقے سے مال کھانے سے مراد یہ ہے کہ جائز معاوضے کے بغیر کسی کا مال ہتھیا لیا جائے۔ مثلاً سود، قمار بازی وغیرہ، جن میں کسی دوسرے کا مال معقول معاوضے کے بغیرہتھیا لیا جاتا ہے۔ مثلاً کتے کی قیمت لینا ناجائز ہے، البتہ اگر کتا کسی معقول اور مفید مقصد میں استعمال ہو سکتا ہے، مثلاً شکار، حفاظت وغیرہ میں تو اس کی قیمت جائز ہو جاتی ہے۔ اسلام کے کسی قانون میں مالی و جانی ضرر کا پہلو نہیں ہوتا، بلکہ اگر کسی قانون میں ضرر کا پہلو آ جائے تو یہ قانون موقوف ہو جاتا ہے۔ مثلاً اسلام نے ملکیت کا حق دیا ہے، لیکن اس میں اگر کسی دوسرے کو ضرر ہو تو یہ حق سلب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انسان اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے درخت کا مالک ہے، لیکن اگر اس درخت کی جڑیں یا شاخیں دوسرے شخص کو ضرر پہنچاتی ہیں تو یہ حق سلب ہو جاتا ہے۔

قرآن نے یہاں پر ایک کلی حکم بیان فرمایا ہے کہ باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال مت کھاؤ اور باطل طریقے کیا ہیں؟ اس کی تفصیل سنت رسول(ص) میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ انتقال ملکیت کے لیے جو عناوین شریعت میں متعین ہیں، ان میں سے کسی عنوان کے تحت آتا ہے، مثلاً خرید و فروخت، ہبہ، وراثت، اجرت، حق مہر، جعالہ وغیرہ تو یہ انتقال ملکیت جائز ہے، ورنہ نہیں۔

۲۔ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ ۔ تجارت: اس آیت میں ایک دوسرے کا مال کھانے کی ممانعت سے آپس کی رضامندی سے واقع ہونے والی تجارت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ کیونکہ اگر مال کے مقابلے میں مال ہے اور آپس کی رضامندی بھی ہے تو یہ تجارت ہے اور جائز ہے اور اگر مال کے مقابلے میںمال نہ ہو تو یہ باطل ہے۔ مال کے مقابلے میں مال ہو لیکن آپس میں رضامندی نہ ہو تو یہ فاسد ہے۔

۳۔ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ: احترام مال کے حکم کے بعد احترام جان کا ذکر ہے جو کہ اسلام کا ایک زرین اصول ہے: حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ ۔ ( بحار الانوار ۲۹: ۴۰۷ ) مال مسلم کو وہی حرمت حاصل ہے جو خون مسلم کو حاصل ہے۔ تمام مؤمنین کو نفس واحدہ قرار دے کر فرمایا کہ تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔

اس آیت کے عموم میں خودکشی اور دوسروں کا قتل بھی شامل ہے بلکہ بنا بر بعض روایات ضرر بہ نفس بھی شامل ہے، جو کہ رحمت الٰہی کا مظہر ہے ۔


آیت 29