محرم عورتیں


وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقۡتًا ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں مگر جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، یہ ایک کھلی بے حیائی اور ناپسندیدہ عمل ہے اور برا طریقہ ہے۔

22۔ زمان جاہلیت میں کچھ لوگ سوتیلی ماؤں سے شادیاں کر لیا کرتے تھے۔ گو کہ یہ عمل اس وقت بھی لوگوں کی نظر میں مبغوض تھا۔ چنانچہ اسے نکاح المقت کہتے تھے۔ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ سے نزول حکم سے قبل کا حکم بیان فرمایا کہ اس سے پہلے جو اس قسم کی شادیاں ہو چکی ہیں، ان سے درگزر کیا جاتا ہے۔ باپ کی منکوحہ سے شادی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ خواہ باپ نے اس عورت سے مباشرت کی ہو یا نہ کی ہو۔ لہٰذا اگر باپ نے کسی عورت سے صرف عقد ہی کیا ہے اور مباشرت نہیں کی تو بھی وہ عورت بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر باپ نے کسی عورت سے نا جائز تعلق قائم کیا ہو اور حرام طور پر مقاربت کی ہو تو وہ عورت بھی اس کے بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔

حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمۡ اُمَّہٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ وَ عَمّٰتُکُمۡ وَ خٰلٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُ الۡاَخِ وَ بَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیۡۤ اَرۡضَعۡنَکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَ اُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمۡ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ ۫ فَاِنۡ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ ۫ وَ حَلَآئِلُ اَبۡنَآئِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِکُمۡ ۙ وَ اَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخۡتَیۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں، تمہاری بھانجیاں، تمہاری وہ مائیں جو تمہیں دودھ پلا چکی ہوں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں اور جن بیویوں سے تم مقاربت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں رہی ہوں، لیکن اگر ان بیویوں سے (صرف عقد ہوا ہو) مقاربت نہ ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کا باہم جمع کرنا، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

23۔ آیت میں تو صرف رضاعی ماؤں اور بہنوں کا ذکر ہے۔ لیکن فریقین نے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو ماخذ قرار دیا ہے: ان اللّہ حرم من الرضاعۃ ما حرم من نسب (مستدرک الوسائل 14 : 336۔ صحیح البخاری کتاب النکاح۔ عبارت وسائل کی ہے۔) یعنی اللہ نے جس چیز کو نسب کے رشتے سے حرام قرار دیا ہے، رضاعت کے رشتے سے بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ عورت اس بچے کی ماں، اس کا شوہر اس بچے کا باپ، اس کی اولاد اس بچے کے بہن بھائی، اس کی بہنیں اس بچے کی خالائیں بن جاتی ہیں اور اس کے شوہر کی بہنیں اس بچے کی پھوپھیاں بن جاتی ہیں۔