آیات 20 - 21
 

وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّکَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّ اٰتَیۡتُمۡ اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ اَتَاۡخُذُوۡنَہٗ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور اگر تم لوگ ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ لینا چاہو اور ایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لینا، کیا تم بہتان اور صریح گناہ کے ذریعے مال لینا چاہتے ہو؟

وَ کَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَ قَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّ اَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور دیا ہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے سے مباشرت کر چکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد و قرار لے چکی ہیں؟

تشریح کلمات

بُہۡتَانًا:

( ب ھ ت ) بھت ۔ حیران و ششدر رہ جانا ۔ بہتان ایسا الزام ہے جسے سن کر انسان حیران اور ششدر رہ جائے۔

اَفۡضٰی:

( ف ض و ) مباشرت کرنا۔ قریبی اتصال رکھنا ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمُ: اگرکوئی شخص محض اپنی خواہشات کی بنا پر موجودہ بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرناچاہتا ہے اور ایک معتدبہ مال اس بیوی کو حق مہر کے طور پر دے چکا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ یہ پورا مال یا اس میں سے کچھ حصہ طلاق کے معاوضے میں واپس لے لے۔ اسے دیا ہوا مال واپس لینے کا مطلب خود بخود یہ نکلتا ہے کہ شوہر بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کر رہا ہے، ورنہ حق مہر ادا نہ کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے، جب کہ اللہ کے نزدیک یہ عظیم گناہ ہے۔

۲۔ دوسری آیت میں دو باتیں اور بیان فرمائی گئی ہیں:

وَ قَدۡ اَفۡضٰی: اول یہ کہ دیا ہوا مہر واپس لینے کی کوئی جائز صورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ تم آپس میں ازدواجی مباشرت کر چکے ہو۔ یعنی عورت اپنے وجود کو تمہارے حوالے کر چکی ہے، جس کے بعد مہر کی رقم تمہارے ذمے واجب الادا ہو چکی ہے۔

ii۔ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا: دوسری بات یہ ہے کہ تم نے عقد نکاح کے ذریعے عہد و میثاق باندھا ہے، جس کی وجہ سے عورت نے اپنے آپ کو تمہارے حوالے کیا ہے۔ مہر کی ادائیگی بھی اس عہد و میثاق میں شامل ہے۔

اہم نکات

۱۔ مالکیت اور معاہدوں میں عورت کا بھی مرد کی طرح احترام کیا جائے گا۔


آیات 20 - 21