آیت 26
 

وَ ہُمۡ یَنۡہَوۡنَ عَنۡہُ وَ یَنۡـَٔوۡنَ عَنۡہُ ۚ وَ اِنۡ یُّہۡلِکُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور یہ(لوگوں کو) اس سے روکتے ہیں اور (خود بھی) ان سے دور رہتے ہیں اور وہ صرف اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں مگر اس کا شعور نہیں رکھتے۔

تشریح کلمات

یَنۡـَٔوۡنَ:

( ن و ء ) ینوء ، یناء کے معنی پہلو پھیر لینے کے ہیں۔ کہتے ہیں۔ ناء بجانبہ

تفسیر آیات

مکہ کے مشرکین کو علم تھا کہ اگر قرآن کے حقائق سے لوگ آگاہ ہو جائیں تو وہ متاثر ہوں گے اور ایمان لائیں گے اور خود اپنے بارے میں بھی خطرہ لاحق تھا کہ اگر خود ہم نے بھی قرآن سنا تو کہیں اسلام قبول نہ کر لیں۔ اس لیے وہ دوسروں کو بھی روکتے اور خود بھی دور رہتے تھے۔

چنانچہ مالک بن نضر فارس کی داستانیں عین اس جگہ کے قریب سنایا کرتا تھا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن سناتے تھے اور کہتا تھا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم داستان پارینہ سناتے ہیں تو میں اس سے بہتر داستانیں سناتا ہوں۔

نیز اخنس، ابوسفیان اور عمرو بن ہشام نے قرآن کی جاذبیت کے خلاف جو تدبیریں اور سازشیں کیں، وہ بھی کتب سیرت میں موجود ہیں۔

لیکن قرطبی نے اپنی تفسیر میں، صاحب تفسیر منیر معاصر اور اردو تفسیر معارف کے مؤلف وغیرہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ وہ رسولؐ کو اذیت دینے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود ایمان لانے سے دوری اختیار کرتے ہیں۔

یہ روایت، کئی اعتبار سے ناقابل اعتبار ہے اور نواصب کی ساختہ و بافتہ ہے۔کیونکہ:

i۔ خود آیت کی تصریح کے خلاف ہے۔ آیت کی صراحت یہ ہے کہ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡکَ یُجَادِلُوۡنَکَ ۔۔۔ جب یہ مشرکین آپؐ کے پاس آتے ہیں تو آپؐ سے جھگڑتے ہیں۔ وَ ہُمۡ یہ لوگ، مشرکین، جو آپؐ سے جھگڑنے آتے ہیں، یَنۡہَوۡنَ عَنۡہُ وَ یَنۡـَٔوۡنَ عَنۡہُ ۔۔۔۔ لوگوں کو قرآن سے روکتے ہیں اور خود بھی اس قرآن سے دور رہتے ہیں۔ چنانچہ سب جانتے ہیں وَہُمْ کی ضمیر ان مشرکین کی طرف ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف جھگڑنے کے لیے آتے تھے۔ اس صراحت کے باوجود وَ ہُمۡ کی ضمیر کو حضرت ابو طالب کی طرف سمجھنا، قرآن کی معنوی تحریف ہے۔

ii۔ یہ عبارت تضاد پر مشتمل ہے۔ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی آیت:

ا ِاِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ (۵ مائدہ : ۵۵)

تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔

کے بارے میں یہ مؤلفین فرماتے ہیں:

جمع کا صیغہ مفرد کے لیے استعمال نہیں ہوتا لیکن اس آیت میں یَنۡہَوۡنَ اور یَنۡـَٔوۡنَ جمع کاصیغہ مفرد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

فرق باپ بیٹے کا تو نہیں ہو سکتا کہ بیٹے کے لیے جمع کا صیغہ استعمال نہیں ہو سکتا اور باپ کے لیے ہو سکتا ہے بلکہ فرق یہ ہے کہ آیہ اِنَّمَا سے بیٹے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور اس آیت سے باپ کا عدم ایمان ثابت ہوتا ہے، جو ان صاحبان کی دلچسپی کی اصل وجہ ہے۔

iii۔ شواہد و دلائل کے مطابق سورہ انعام حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد مکہ میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ علامہ سیوطی نے الاتقان ۱: ۲۶ میں لکھا ہے کہ سورہ انعام سورہ قصص سے سات سوروں کے بعد نازل ہوا ہے اور بروایت بخاری سورہ قصص کی آیت۵۶: اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ ۔۔۔ حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد نازل ہوئی ہے، لہٰذا سورہ انعام حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد نازل ہونے والا آٹھواں سورہ ہے۔

iv۔ یہ روایت کہ آیت حضرت ابوطالبؑ کے عدم ایمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے، حبیب بن ابی ثابت نے ایک مجہول شخص سے روایت کی ہے۔ اس نے ابن عباس سے، تو ایک نامعلوم اور مجہول راوی کی روایت سے بھی مطلب ثابت ہوجاتا ہے، اگر اس سے علی علیہ السلام کے والد کی قدح مقصود ہو۔

v۔ خود حبیب بن ابی ثابت غیر ثقہ اور تدلیس سے متہم ہے۔ (تہذیب ۲: ۱۷۹)

vi۔ خود ابن عباس سے متعدد روایات سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں ہے جو لوگوں کو قرآن سننے سے روکتے تھے اور خود بھی دوری اختیار کرتے تھے۔ (تفسیر طبری، الدرالمنشور ، البحر المحیط۴: ۴۷۲)

vii۔ سیاق و سباق کے خلاف ہے کہ مشرکین کے جرائم کے ذکر کے عین اثنا میں ایک دفاع کرنے والے کا ذکر آئے اور سب کے ساتھ یکساں سرزنش کی جائے۔

viii۔ ائمہ اہل بیت علیہ السلام کی طرف سے اجماع ہے کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام مؤمن تھے۔ اہل بیت (ع) کا اجماع حجت ہے کیونکہ یہ قرآن کے ہم پلہ ہیں۔ جیساکہ رسول اسلامؐ نے فرمایا: انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی۔ حدیث ثقلین ۳۵ اصحاب کی روایت سے ثابت ہے۔


آیت 26