ایمان ابو طالب پر اعتراض کا جواب


وَ ہُمۡ یَنۡہَوۡنَ عَنۡہُ وَ یَنۡـَٔوۡنَ عَنۡہُ ۚ وَ اِنۡ یُّہۡلِکُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور یہ(لوگوں کو) اس سے روکتے ہیں اور (خود بھی) ان سے دور رہتے ہیں اور وہ صرف اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں مگر اس کا شعور نہیں رکھتے۔

26۔ وَ ہُمۡ یعنی وہ لوگ جو آپ ﷺکے پاس آپ ﷺ سے جھگڑنے کے لیے آتے ہیں نیز لوگوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے ہیں اور خود بھی دور رہتے ہیں۔ سیاق و سباق کلام، رسول ﷺ اللہ سے جھگڑنے والے مشرکین کے بارے میں ہے، لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اور اردو تفسیر معارف القرآن کے مؤلف وغیرہ نے اس روایت کی نقل میں کوئی خفت محسوس نہیں کی کہ یہ آیت حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی کہ وہ لوگوں کو رسول ﷺکی اذیت سے روکتے تو تھے لیکن خود ایمان لانے سے دوری اختیار کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا میں جمع کا صیغہ مفرد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس آیت میں یَنۡہَوۡنَ اور وَ یَنۡـَٔوۡنَ جمع کے صیغے مفرد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ فرق باپ بیٹے کا تو نہیں کہ بیٹے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا، باپ کے لیے ہو سکتا ہے، بلکہ فرق یہ ہے کہ آیہ اِنَّمَا سے بیٹے حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور اس آیت سے (نعوذ باللہ) باپ کا کفر ثابت ہوتا ہے۔ خود روایت کا حال یہ ہے کہ اولاً حبیب بن ابی ثابت ایک مجہول شخص سے روایت ہے۔ ثانیاً یہ روایت ابن عباس کی طرف منسوب ہے جو ان متعدد روایات سے متصادم ہے جو خود ابن عباس سے مروی ہیں اور جن میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں ہے جو قرآن سننے سے روکتے تھے۔