بَلۡ بَدَا لَہُمۡ مَّا کَانُوۡا یُخۡفُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔بلکہ ان پر وہ سب کچھ واضح ہو گیا جسے یہ پہلے چھپا رکھتے تھے اور اگر انہیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے اور یقینا یہ جھوٹے ہیں۔

27۔28۔عالم آخرت کے مشاہدے کے بعد مشرک یہ آرزو کرے گا کہ کاش ہمیں ایک موقع اور مل جاتا تو ہم ایمان والوں میں شامل ہو جاتے۔ اگرچہ واپس دنیا میں جانا ممکن نہیں ہے لیکن انسان ناممکنات کی بھی آرزو کرتا ہے کہ کاش جوانی لوٹ آتی۔

بَلۡ بَدَا لَہُمۡ : یہ آرزو وہ اس وقت کریں گے جب ان پر وہ بات واضح ہو جائے گی جسے یہ دنیا میں چھپاتے تھے۔ یعنی اپنے اعمال بد کو چھپاتے تھے، آج وہ آتش جہنم کے مشاہدے سے ظاہر ہو گئے۔

جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَبَدَا لَہُمْ سَيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا (زمر:48) یہ جنت و نار کی حقانیت کو دنیا میں چھپاتے تھے، آج آتش جہنم کے مشاہدے سے وہ بات عیاں ہو گئی۔

وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا : اگر انہیں دنیا میں واپس بھی کیا جائے تو وہی کفر اختیار کریں گے۔ چنانچہ جو لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو بڑے خلوص سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جب عافیت مل جاتی ہے تو پھر اسی گندی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔