انکار حقائق کی عادت


وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَیۡنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور جس دن ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے پوچھیں گے: تمہارے وہ شریک اب کہاں ہیں جن کا تمہیں زعم تھا؟

ثُمَّ لَمۡ تَکُنۡ فِتۡنَتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشۡرِکِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔پھر ان سے اور کوئی عذر بن نہ سکے گا سوائے اس کے کہ وہ کہیں: اپنے رب اللہ کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ کَذَبُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔دیکھیں: انہوں نے اپنے آپ پر کیسا جھوٹ بولا اور جو کچھ وہ افترا کرتے تھے کس طرح بے حقیقت ثابت ہوا؟

22 تا 24۔ بروز قیامت مشرکین سے یہ خطاب ہو گا کہ وہ اپنے ان دیوتاؤں کو تلاش کریں جن سے انہوں نے ساری امیدیں وابستہ کر رکھیں تھیں کہ وہ اس روز ان کی شفاعت کریں، ان کو نجات دلائیں۔ مشرکین جواب میں یہ عذر پیش کریں گے اور قسم کھائیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے: يَوْمَ يَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَہٗ كَـمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰي شَيْءٍ (مجادلۃ: 18) وہی طرز قسم جو دنیا میں کھایا کرتے تھے۔ یَوۡمَ تُبۡلَی السَّرَآئِرُ اس دن تمام راز فاش ہو جائیں گے۔ جس کی وجہ سے انکار کی گنجائش نہیں رہتی تاہم دنیا میں جن لوگوں کا خلق و خو حقائق سے انکار کرنا تھا، آخرت میں اسی خلق و خو کے ساتھ محشور ہوں گے۔ چنانچہ دنیا میں مشرکین کا خلق و خو حقائق سے انکار کرنا تھا، یہی وطیرہ قیامت کے دن بھی اپنائیں گے۔

ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ قیامت کے روز حقائق سامنے آئے تو ان دیوتاؤں کی حقیقت فاش ہو گئی کہ وہ ایک واہمہ کے سوا کچھ نہ تھے۔