آیات 27 - 28
 

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ وُقِفُوۡا عَلَی النَّارِ فَقَالُوۡا یٰلَیۡتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر آپ (وہ منظر)دیکھیں جب وہ جہنم کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے: کاش ہم پھر (دنیا میں) لوٹا دیے جائیں اور ہم اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ہم ایمان والوں میں شامل ہو جائیں۔

بَلۡ بَدَا لَہُمۡ مَّا کَانُوۡا یُخۡفُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔بلکہ ان پر وہ سب کچھ واضح ہو گیا جسے یہ پہلے چھپا رکھتے تھے اور اگر انہیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے اور یقینا یہ جھوٹے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ تَرٰۤی: عالم آخرت کے مشاہدے کے بعد مشرکین یہ آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں ایک موقع

اور مل جائے تو ہم ایمان والوں میں شامل ہوجائیں۔ اگرچہ واپس دنیا میں جانا ممکن نہیں ہے لیکن انسان ناممکنات کی بھی آرزو کرتا ہے کہ کا ش جوانی لوٹ آتی۔

۲۔ بَلۡ بَدَا لَہُمۡ: یہ آرزو وہ اس وقت کریں گے، جب ان پر وہ بات واضح ہو جائے گی، جسے یہ دنیا میں چھپاتے تھے۔ اپنے جن اعمال بد کو وہ چھپاتے تھے، آج وہ آتش جہنم کے مشاہدے سے ظاہر ہو گئے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ بَدَا لَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا ۔۔۔ (۳۹ زمر : ۴۸)

اور ان کی بری کمائی بھی ان پر ظاہر ہو جائے گی۔

یا یہ کہ جنت و نار کی حقانیت کو وہ دنیا میں چھپاتے تھے، آج آتش جہنم کے مشاہدے سے وہ بات عیاں ہو گئی۔

۳۔ وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا: اگر انہیں دنیا میں واپس بھی کیا جائے تو وہی کفر اختیار کریں گے۔ چنانچہ جو لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں، جب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو بڑے خلوص سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جب عافیت مل جاتی ہے تو پھر اسی گندی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔آخرت میں مؤمنین کی زندگی قابل رشک ہوگی: وَ نَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔

۲۔ناقابل ہدایت لوگ پردہ اٹھنے اور حقائق کا مشاہدہ کرنے پر بھی ہدایت نہیں پاتے: لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا ۔۔۔۔۔۔


آیات 27 - 28