آیت 25
 

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ ۚ وَ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡا بِہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡکَ یُجَادِلُوۡنَکَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر آپ کی باتیں سنتے ہیں، لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ انہیں سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی (بہراپن) ہے اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں پھر بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ یہ (کافر) آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑتے ہیں، کفار کہتے ہیں: یہ تو بس قصہ ہائے پارینہ ہیں۔

تشریح کلمات

اَکِنَّۃً:

( ک ن ن ) مفرد الکنان ۔ جیسے سنان کی جمع اسنۃ ہے۔ پردہ، غلاف جس میں کوئی چیز چھپائی جائے۔

وَقۡرً:

( و ق ر ) کان میں بھاری پن۔ گدھے، خچر پر لدے بوجھ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن میں آیا ہے: فَالۡحٰمِلٰتِ وِقۡرًا ۔ (۵۱ ذاریات: ۲)

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً: اس سے پہلے بھی کئی بار ذکر آیا ہے کہ جو لوگ قابل ہدایت نہیں رہتے، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت و شفقت کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اسی کو دلوں پر پردہ ڈالنے اور مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ کا طریقہ کار اور سنت یہ ہے کہ جو اس کی ہدایت کو قبول اور حاصل کرنے کے لیے سعی کرتے ہیں، ان کو ہدایت سے نوازتا ہے:

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔۔۔۔ (۲۹ عنکبوت: ۶۹)

اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے۔۔۔۔

اور تزکیہ نفس کے ساتھ نجات و کامیابی ممکن ہے:

قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا (۹۱ شمس : ۹)

بتحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا۔

۲۔ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ: اس کے بر خلاف جن لوگوں نے انکار اور عصبیت کا تہیہ کر رکھا ہے، وہ تمام نشانیاں دیکھ بھی لیں لیکن ایمان نہیں لاتے۔ ان کا ایمان نہ لانا معجزات کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے۔

۳۔ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡکَ: یہ لوگ آپؐ کے پاس آتے ہیں تو کسی بات کو سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ آپؐ کے پیغام کو مسترد کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ جس نے کسی بات کو رد کرنے کا پہلے سے تہیہ کیا ہو، وہ اس بات کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔

واضح رہے یَّسۡتَمِعُ مفرد، آگے قُلُوۡبِہِمۡ جمع ہے۔اس کی وجہ لفظ مَن ہے جو لفظ کے اعتبار سے مفرد اور معنی کے اعتبار سے جمع ہے۔ اس لیے یَّسۡتَمِعُ مفرد لفظ مَن کے اعتبار سے ہے۔ آگے قُلُوۡبِہِمۡ جمع مَنْ کے اعتبار سے ہے۔

اہم نکات

۱۔جیساکہ انسان اپنے ناقابل ہدایت بیٹے کو عاق کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگو ں کو اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔


آیت 25