قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوۡۤا اَہۡوَآءَ قَوۡمٍ قَدۡ ضَلُّوۡا مِنۡ قَبۡلُ وَ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا وَّ ضَلُّوۡا عَنۡ سَوَآءِ السَّبِیۡلِ﴿٪۷۷﴾

۷۷۔ کہدیجئے: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا ہیں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہی میں ڈال چکے ہیں اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔

77۔ سابقہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ مسیحیوں نے اپنے دین میں غلو اور مبالغہ کے کتنے مراحل طے کیے۔ اس آیت میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ ہے، وہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس میں غلو اور مبالغہ کا اصل سرچشمہ کہاں ہے؟ قرآن فرماتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی پیروی سے آیا ہے جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا تھے۔

مسیحی تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے والا بخوبی جانتا ہے کہ ان کے دین میں خرافات دو گروہوں کی طرف سے داخل ہوئے ہیں۔ ایک یہود اور دوسرا یونان کے بت پرست۔ اس مطلب پر گواہ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں مسیحی عالم ریورنید چارلس اینڈرسن سکاٹ) کا مقالہ ہے جس میں اعتراف کرتے ہیں کہ باپ بیٹا اور روح القدس کی اصطلاحیں یہودی ذرائع کی بہم پہنچائی ہوئی ہیں۔