لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہُوۡا عَمَّا یَقُوۡلُوۡنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۳﴾

۷۳۔بتحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: اللہ تین میں کا تیسرا ہے جبکہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہیں آتے تو ان میں سے کفر کرنے والوں پر دردناک عذاب ضرور واقع ہو گا۔

73۔ مسیحیوں کا عقیدﮤ تثلیث جن مراحل سے گزرا ہے اس پر ایک طائرانہ نظر: سب سے پہلے یہ اختلاف وجود میں آیا کہ مسیح علیہ السلام اللہ ہیں یا رسول؟ یہ نظریہ پہلے سے موجود تھا کہ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ قائم ہوا کہ انہیں اللہ کے ہاں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ تیسرا نظریہ یہ پیدا ہوا کہ مسیح علیہ السلام چونکہ بن باپ پیدا ہوئے اس لیے وہ اللہ کا بیٹا ہیں اور مخلوق بھی۔ چوتھا نظریہ یہ وجود میں آیا کہ مسیح علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہیں مخلوق نہیں۔ 325 عیسوی میں ان اختلافات کے تصفیے کے لیے روم میں ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں 48 ہزار علماء اور ماہرین نے شرکت کی۔ شہنشاہ قسطنطین نے، جو حال ہی میں مسیحی بن گیا تھا، یہ نظریہ اپنا لیا کہ مسیح علیہ السلام ہی خدا ہیں۔ چنانچہ باقی مذاہب خصوصاً نظریۂ توحید پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد روح القدس کے بارے میں بھی اختلاف ہوا۔ کچھ نے اسے خدا کا درجہ دیا اور کچھ منکر ہو گئے۔ 381 ء میں قسطنطنیہ میں ایک اور اجتماع ہوا جس میں یہ فیصلہ ہوا: روح القدس روح اللہ ہے، روح اللہ، اللہ کی حیات ہے۔ اگر ہم نے روح اللہ کو مخلوق کہ دیا تو اللہ کی حیات مخلوق قرار پاتی ہے اور اللہ حی (زندہ) نہیں رہتا اور اگر ہم نے اللہ کو حی (زندہ) نہیں سمجھا تو ہم کافر ٹھہریں گے۔ چنانچہ اس اجتماع میں روح القدس بھی خدا کے درجے پر فائز ہو گیا۔ یوں باپ، بیٹے اور روح القدس کی تثلیث کو آخری شکل دے دی گئی۔ (محمد ابو زہرہ کی کتاب محاضرات فی النصرانیہ سے تلخیص)