آیات 78 - 79
 

لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ، داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی، کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔

کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔ جن برے کاموں کے وہ مرتکب ہوتے تھے ان سے وہ باز نہیں آتے تھے، ان کا یہ عمل کتنا برا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام نے جو بنی اسرائیل پر لعنت بھیجی ہے، اس کا ذکر عہد عتیق اور عہد جدید میں موجود ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل نے حضرت داؤدؑ کے زمانے میں قانون سبت (ہفتے کے دن مچھلی شکار نہ کرنے کے حکم) کو توڑا اور حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں ان کی تکذیب کی۔

ذٰلِکَ: بنی اسرائیل کے ملعون واقع ہونے کے دو بنیادی اسباب کا ذکر ہے:

بِمَا عَصَوۡا: ایک تو ان کا عصیان اور سرکشی ہے۔

ii۔ لَا یَتَنَاہَوۡنَ: وہ منکرات کے ارتکاب سے باز نہیں آتے تھے۔

یعنی منکرات اور برائیوں کے آگے کوئی لگام نہ تھی۔

اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ انبیاء کی زبان سے ملعون ہونے والے ملعون ہی ہوتے ہیں، انبیاء کی لعنت رحمت میں نہیں بدلتی۔ جیسا کہ کچھ لوگوں نے اس سلسلے میں بعض ملعونوں کو بچانے کے لیے حدیث گھڑ لی ہے۔

اہم نکات

۱۔ بنی اسرائیل خود اپنی قوم میں مبعوث ہونے والے انبیاء کی زبان سے ہی ملعون قرار پائے ہیں: لُعِنَ الَّذِیۡنَ ۔۔ ۔

۲۔ جس معاشرے میں لوگ برائیوں سے باز نہ آئیں، ان کا بھی یہی حشر ہو گا: کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ ۔۔۔


آیات 78 - 79