آیات 80 - 81
 

تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ یَتَوَلَّوۡنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ لَبِئۡسَ مَا قَدَّمَتۡ لَہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ اَنۡ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ فِی الۡعَذَابِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔آپ ان میں سے بیشتر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ (مسلمانوں کے مقابلے میں) کافروں سے دوستی کرتے ہیں، انہوں نے جو کچھ اپنے لیے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ان پر ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔

وَ لَوۡ کَانُوۡا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَا اتَّخَذُوۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ وَ لٰکِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور اگر وہ اللہ اور نبی اور ان کی طرف نازل کردہ کتاب پر ایمان رکھتے تو ایسے لوگوں سے دوستی نہ کرتے مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ: اے رسولؐ! آپؐ اپنے معاصر بنی اسرائیل کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپؐ کے مقابلے میں کافروں سے دوستی کرتے ہیں اور آپؐ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے ان کی مدد کرتے ہیں، حالانکہ آپؐ ان کی کتاب پر ایمان رکھتے اور ان کی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں۔ مشرکین تو ان کی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے۔

۲۔ وَ لَوۡ کَانُوۡا یُؤۡمِنُوۡنَ: اگر یہ لوگ اللہ اور نبی پر ایمان رکھتے، خواہ خود حضرت موسیٰ (ع) پر ایمان رکھتے تو وہ حضرت موسیٰ (ع) کے منکرین سے دوستی نہ کرتے۔

سلسلۂ آیات اہل کتاب، خاص کر یہودیوں کے بارے میں ہے، لہٰذا آیت میں النَّبِیِّ سے مراد حضرت موسیٰ (ع) ہی ہو سکتے ہیں۔

۳۔ وَ لٰکِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ: یہودیوں میں بہت سے لوگ خود حضرت موسیٰ (ع) پر ایمان کے تقاضوں کی خلاف ورزی کر کے فاسق ہو گئے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ یہود اسلام کے مقابلے میں اپنے دیگر دشمنوں سے صلح کے لیے آمادہ ہیں: یَتَوَلَّوۡنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۔

۲۔ اسلام کے دشمن سے دوستی کرنا یہود کی قدیمی روش ہے۔


آیات 80 - 81