آیت 73
 

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہُوۡا عَمَّا یَقُوۡلُوۡنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۳﴾

۷۳۔بتحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: اللہ تین میں کا تیسرا ہے جبکہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہیں آتے تو ان میں سے کفر کرنے والوں پر دردناک عذاب ضرور واقع ہو گا۔

تفسیر آیات

مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تین اقنوم (اصل) ہیں۔ ان میں سے ہر ایک الگ الگ بھی خدا ہے اور تینوں مجتمعاً مل کر ایک خدا ہیں۔ ایک شخص سے عقیدہ تثلیث کے بارے میں سوال کیا گیا جو تازہ مسیحی ہوا تھا تو اس نے کہا: ایک تین ہیں اور تین ایک ہے۔ ان میں سے ایک سولی چڑھ گیا اور مر گیا، لہٰذا سب مر گئے، چونکہ یہ سب ایک وحدت میں تھے، لہٰذا اس وقت کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر کوئی خدا موجود رہ گیا ہے تو وحدت ٹوٹ جاتی ہے۔) ان کا عقیدہ تثلیث کن مراحل سے گزر کر وجود میں آیا اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

خود اناجیل میں موجود تعلیمات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام توحید کے داعی اور الٰہ واحد کی عبادت کی طرف دعوت دینے والے تھے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی عقیدہ توحید ان کے شاگردوں میں موجود و رائج تھا۔ چنانچہ انجیل برنابا عقیدہ توحید اور مسیح (ع) کے رسو ل ہونے کی قائل ہے لیکن بعد میں بت پرستانہ ذہنیت کے لوگ اس مذہب میں داخل ہونے کی وجہ سے دین مسیحیت کی اصل شکل و صورت مسخ ہو کر رہ گئی۔

سب سے پہلے یہ اختلاف وجود میں آیا کہ حضرت مسیح (ع) ، اللہ ہیں یا رسول۔ چنانچہ ایک نظریہ تو پہلے سے یہ قائم تھا کہ مسیح (ع) اللہ کے رسول ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ بنا کہ مسیح (ع) اللہ کے رسول ضرور ہیں لیکن ان کا اللہ کے پاس ایک خاص مقام اور اللہ سے ایک خاص ربط ہے۔ تیسرا نظریہ یہ تھا کہ مسیح (ع) اللہ کا بیٹا ہیں چونکہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے، تاہم مخلوق بھی ہیں۔ چوتھا نظریہ یہ وجود میں آیا کہ مسیح (ع) اللہ کے بیٹے ہیں اور مخلوق نہیں، باپ کی طرح قدیم ہیں۔

چنانچہ ۳۲۵ عیسوی میں ان اختلافات کے تصفیہ کے لیے نیقیا میں ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں ۴۸ ہزار علماء اور ماہرین نے شرکت کی۔ چنانچہ روم کا شہنشاہ قسطنطین، جو بت پرست سے تازہ نصرانی بن گیا تھا اور مسیحیت کے بارے میں اسے کچھ علم نہ تھا، نے یہ نظریہ اپنا لیا کہ مسیح (ع) ہی خدا ہیں۔ اس نظریہ کو دوسروں پر مسلط کیا اور باقی مذاہب پر پابندی لگا دی۔ خصوصاً نظریہ توحید پر۔

اس کے بعد روح القدس کے بارے میں ایک نیا اختلاف سامنے آیا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے روح القدس کو بھی خدا کا درجہ دیا اور کچھ منکر ہو گئے۔

۳۸۱ عیسوی میں قسطنطنیہ میں ایک اور اجتماع ہوا جس میں یہ فیصلہ صادر ہوا :

روح القدس روح اللہ ہیں۔ روح اللہ ، اللہ کی حیات ہیں۔ اگر ہم نے روح اللہ کو مخلوق کہا تو اللہ کی حیات مخلوق ہو جاتی ہے۔ اگر اللہ کی حیات مخلوق ہوتی تو اللہ حَی نہ ہوا۔ اگر ہم نے اللہ کو حَی (زندہ) نہیں سمجھا تو ہم کافر ہو گئے۔ چنانچہ اس اجتماع میں روح القدس بھی خدا کے درجہ پر فائز ہو گیا اور باپ، بیٹا اور روح القدس کی تثلیت کو آخری شکل دے دی گئی۔

اس کے بعد ایک اور اختلاف حضرت مسیح (ع) کے الٰہی اور انسانی پہلو کے بارے میں وجود میں آیا۔ ان میں سے کچھ نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہاں ایک اقنوم ہے اور ایک طبیعت الٰہی، اقنوم باپ کی طرف سے ہے اور انسانی طبیعیت حضرت مریم (س) کی طرف سے، لیکن اس نظریے کے کافی مخالفین موجود تھے۔

چنانچہ اس اختلاف کے فیصلے کے لیے ایک اور اجتماع ۴۳۱ ء میں شہر افس میں منعقد ہوا، جس میں یہ فیصلہ ہوا :

مریم عذرا، اللہ کی والدہ ہیں اور مسیح (ع) برحق خدا ہیں اور انسان بھی ہیں اور دونوں طبیعتیں ایک ہی اقنوم میں جمع ہیں۔

اس کے بعد اسی شہر افس میں ایک اور اجتماع ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا :

حضرت مسیح ایک ہی طبیعیت کا نام ہے جس میں لاہوت اور ناسوت دونوں جمع ہیں۔

لیکن یہ نظریہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اختلاف گرم رہا۔ چنانچہ ۴۵۱ عیسوی میں خلقیدونیہ کالیسڈن میں ایک اور اجتماع ہوا۔ اس میں یہ فیصلہ ہوا :

مسیح (ع) ایک نہیں دو طبیعتوں کے مالک تھے۔ ل اہوت ایک طبیعت ہے اور ناسوت اپنی جگہ ایک اور طبیعت ہے۔ یہ دونوں مسیح میں جمع ہو گئی ہیں۔ ( محاضرات فی النصرانیۃ محمد ابوزہرہ سے تلخیص۔)


آیت 73