فَکَذَّبَ وَ عَصٰی ﴿۫ۖ۲۱﴾

۲۱۔ مگر اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔

ثُمَّ اَدۡبَرَ یَسۡعٰی ﴿۫ۖ۲۲﴾

۲۲۔ پھر دوڑ دھوپ کرنے کے لیے لوٹ گیا۔

فَحَشَرَ فَنَادٰی ﴿۫ۖ۲۳﴾

۲۳۔ چنانچہ (لوگوں کو) جمع کر کے پکارا۔

فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی ﴿۫ۖ۲۴﴾

۲۴۔ پھر کہنے لگا: میں ہی تمہارا رب اعلیٰ ہوں۔

24۔ فرعون اپنے آپ کو سورج دیوتا کا نمائندہ اور شرعی اور قانونی حکمران تصور کرتا تھا۔ اگرچہ وہ اپنے علاوہ دیگر معبودوں کا قائل تھا، تاہم زمین پر اقتدار اعلیٰ کا مالک اپنے آپ کو تصور کرتا تھا۔

فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الۡاٰخِرَۃِ وَ الۡاُوۡلٰی ﴿ؕ۲۵﴾

۲۵۔ پس اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا۔

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی ﴿ؕ٪۲۶﴾

۲۶۔ ڈرنے والے کے لیے یقینا اس میں عبرت ہے۔

ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾

۲۷۔ کیا تمہارا خلق کرنا زیادہ مشکل ہے یا اس آسمان کا جسے اس نے بنایا ہے؟

27۔ تم کہتے ہو: ہماری بوسیدہ ہڈیوں کو اللہ کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا؟ کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ عالم بالا کی موجودات کا بنانا اس انسان کو دوبارہ بنانے سے زیادہ مشکل اور سنگین کام تھا ؟ لیکن اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

رَفَعَ سَمۡکَہَا فَسَوّٰىہَا ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ اللہ نے اس کی چھت اونچی کی پھر اسے معتدل بنایا۔

28۔ سَمۡکَ : چھت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾

۲۹۔ اور اس کی رات کو تاریک اور اس کے دن کو روشن کیا۔

وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾

۳۰۔ اور اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا۔

30۔ یعنی آسمان کو بلند کرنے، دن رات کے وجود میں آنے کے بعد زمین کا دحو ہوا۔ دحو بچھانے کو کہتے ہیں۔جوہری نے صحاح میں کہا: دحو لڑھکنے کو کہتے ہیں۔ راغب نے کہا: اذا لھا عن مقرھا ۔ اپنے ٹھکانے سے ہٹا دینے کو کہتے ہیں۔ ہم دحو کو بچھانے کے معنوں میں لیتے ہیں۔ کرﮤ زمین کی تخلیق پہلے ہوئی لیکن بچھانے کا عمل بعد میں ہوا۔ جب آسمان خلق ہوئے تو آسمان سے باقی کرات میں دن اور رات وجود میں آنے لگے۔ اس کے بعد زمیں کو بچھانا شروع کیا۔ اس سے پہلے زمین ایک آتشیں کرہ تھی۔ آہستہ آہستہ سرد ہونا شروع ہوئی اور مٹی وجود میں آنے لگی۔ جسے دحو کہا گیا ہے یا یہ کہ شروع میں زمین کو سرد کرنے کے لیے پورا کرہ ارض پانی میں ڈوبا ہوا تھا، آہستہ آہستہ خشکی نمودار ہونا شروع ہوئی جسے دحو کہتے ہیں۔ پھر اس خشکی میں دریا اور چشمے جاری کر دیے، جس سے حیوانوں کے لیے چارہ اور انسانوں کے لیے دانہ وجود میں آیا۔