اَخۡرَجَ مِنۡہَا مَآءَہَا وَ مَرۡعٰہَا ﴿۪۳۱﴾

۳۱۔ اس نے زمین سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔

وَ الۡجِبَالَ اَرۡسٰہَا ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے۔

مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ ﴿ؕ۳۳﴾

۳۳۔ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زندگی کے طور پر۔

فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّۃُ الۡکُبۡرٰی ﴿۫ۖ۳۴﴾

۳۴۔ پس جب بہت بڑی آفت آ جائے گی۔

34۔ الطَّآمَّۃُ اس آفت کو کہتے ہیں جو ناقابل تحمل ہوتی ہے۔ اس پر کبریٰ کا تاکیدی لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔

یَوۡمَ یَتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۵﴾

۳۵۔ تو اس دن انسان اپنا عمل یاد کرے گا۔

35۔ جب قیامت کی ناقابل تحمل اور بڑی آفت آ چکی ہو گی تو اس وقت انسان کو اپنا سارا کیا دھرا یاد آ جائے گا۔

وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ لِمَنۡ یَّرٰی ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور دیکھنے والوں کے لیے جہنم ظاہر کی جائے گی۔

فَاَمَّا مَنۡ طَغٰی ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ جس نے سرکشی کی،

وَ اٰثَرَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی،

38۔ دنیاوی زندگی کو ترجیح دی۔ یعنی جب دنیا اور آخرت میں سے ایک کو اختیار کرنے کی نوبت آئی تو آخرت ٹھکرا کر دنیا کو ترجیح دی۔ ان لوگوں کے لیے ٹھکانا آتش جہنم ہے۔ جہاں دنیا و آخرت میں ٹکراؤ نہیں ہے، وہاں دنیا کو اہمیت دینے کو ترجیح دینا نہیں کہتے۔

فَاِنَّ الۡجَحِیۡمَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۳۹﴾

۳۹۔ اس کا ٹھکانا یقینا جہنم ہو گا۔

وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾

۴۰۔ اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اور نفس کو خواہشات سے روکتا ہے،

40۔ نفس کو ان خواہشات سے روکتا ہے جو مہلک ہیں، ورنہ قانون و شریعت کے دائرے میں رہ کر جائز خواہشات کو پورا کرنا بھی عبادت ہوتی ہے، جیسے ازدواج۔