آیت 30
 

وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾

۳۰۔ اور اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا۔

تشریح کلمات

دَحٰىہَا:

( د ح و ) الدحو بچھانے کے معنوں میں ہے۔ العین کے مطابق الدحو البسط ہے۔ راغب اور العین کے مطابق محاورہ ہے: دحا المطر الحصی عن وجہ الارض۔ بارش زمین سے کنکریوں کو بہا کر لے گئی۔ جوہری نے صحاح میں کہا ہے: دحو لڑھکنے کو کہتے ہیں۔ راغب نے کہا ہے: دحو کے معنی ہیں ازالھا عن مقرھا۔ اپنے ٹھکانے سے ہٹا دینے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ہم دحو بچھانے کے معنوں میں لیں گے چونکہ عصر نزول قرآن کے مخاطبین بچھانے کا معنی سمجھ سکتے تھے۔ بعض محققین اس لفظ کو لڑھکنے اور اپنے ٹھکانے سے ہٹا دینے کے معنوں میں لیتے ہیں۔ پھر اس سے حرکت زمین پر استدلال کرتے ہیں جو بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا۔ چونکہ عصر نزول قرآن کے مخاطبین حرکت زمین سمجھنے سے قاصر تھے مگر یہ کہ یہ کہا جائے زمانہ قرآن کی تفسیر کرتا ہے اور قرآن ہر زمانے میں جدیدیت اور تازگی رکھتا ہے:

فھو فی کل زمان جدید وعند کل قوم غضّ الی یوم القیامۃ۔ (بحار الانوار ۲: ۲۸۰)

یہ قرآن ہر دور میں جدیدیت اور ہر قوم کے لیے قیامت تک تازگی رکھتا ہے۔

۲۔ وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ: آسمان بنانے اور شب و روز وجود میں لانے کے بعد زمین کو بچھایا۔ اس آیت میں بَعۡدَ ذٰلِکَ سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کی تخلیق بعد میں ہوئی ہے جب کہ سورہ بقرۃ کی آیت ۲۹ سے ظاہر ہوتا ہے زمین پہلے خلق ہوئی ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ۔۔۔۔۔۔

وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پید ا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا۔

کہتے ہیں ثُمَّ اسۡتَوٰۤی میں ثُمَّ (پھر) سے بَعۡدَ ذٰلِکَ میں زیادہ صراحت ہے کیونکہ ثُمَّ ترتیب زمانی کے علاوہ ترتیب رُتبی کے لیے بھی آتا ہے۔ کہتے اگر عطف مفرد بر مفرد ہو تو ثُمَّ ترتیب زمانی کے لیے ہوتا ہے اور اگر جملہ دیگر جملے پر عطف ہو جائے تو ترتیب رتبی کے لیے ہوتا ہے۔

جب کہ اس آیت میں بَعۡدَ ذٰلِکَ ترتیب زمانی پر زیادہ صریح ہے۔ لہٰذا یہ موقف اختیار کرنا چاہیے: آسمان پہلے اور زمین بعد میں بنی ہے۔

ممکن ہے بَعۡدَ کا لفظ مجازاً یہ بتانے کے لیے ہو کہ بَعْدَ کے ذکر کے بعد آنے والا جملہ کمتر حیثیت کا ہے۔ جیسے عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ ﴿﴾ ( ۶۸ قلم: ۱۳) میں ہے۔

لیکن آیت میں زمین کی تخلیق کا ذکر نہیں ہے بلکہ بچھانے کا ذکر ہے۔ لہٰذا ممکن ہے زمین کی تخلیق آسمانوں کی تخلیق سے پہلے ہو گئی ہو لیکن بچھانے کا عمل بعد میں ہوا ہو۔ زمین کے بچھانے کی بات دو صورتوں میں سے ایک ہو سکتی ہے:

پہلی صورت یہ ہے کہ زمین پہلے آتشین کرہ تھی۔ آہستہ آہستہ سرد ہونا شروع ہوئی اور مٹی وجود میں آنے لگی جسے دحو بچھانے کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ زمین کو سرد کرنے کے لیے پورے کرۂ ارض کو پانی میں ڈبو دیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ خشکی نمودار ہونا شروع ہو گئی۔ اس دحو کہا گیا۔


آیت 30