اَمۡ لَہُمۡ شُرَکَآءُ ۚۛ فَلۡیَاۡتُوۡا بِشُرَکَآئِہِمۡ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ کیا ان کے شریک ہیں؟ پس اگر وہ سچے ہیں تو اپنے شریکوں کو لے آئیں۔

یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ جس دن مشکل ترین لمحہ آئے گا اور انہیں سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے۔

42۔ یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ : جب کوئی ہنگامی حالت اور غیر معمولی سختی پیش آتی ہے تو لوگ اس سے نمٹنے کے لیے آمادگی کے طور پر کپڑے سمیٹ لیتے ہیں اور پنڈلی کھول لیتے ہیں۔ چنانچہ غیرمعمولی حالت درپیش ہونے کی صورت میں کشف ساق ایک محاورہ بن گیا ہے۔ لہٰذا اس کا ترجمہ پنڈلی کی تجلی سے کرنا، اللہ کا جسم ہونے کے قائل ہونے کے مترادف ہے۔ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ قرینہ ہے کہ کشف ساق عدم سالمیت کا محاورہ ہے۔ جیسا کہ سعد بن خالد نے موت نزدیک آنے کی اضطرابی حالت میں یہی تعبیر اختیار کی ہے:

کشفت لہم عن ساقھا

وبدا من الشر الصراح

و بدت عقاب الموت

یخفق تحتھا الاجل المتاح

صحیح بخاری تفسیر سورہ قلم میں آیا ہے: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا۔“ روایت کی صحت کا التزام کرنے والے اللہ کے تجسم تک جا پہنچتے ہیں۔ پھر الکیف مجہول اس پنڈلی کی حقیقت غیر معلوم کہ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ اللہ کی پنڈلی کا انسانوں کی پنڈلی کی طرح ہونا ضروری نہیں ہے۔

وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ : یہ حکم طعن و تشنیع کے طور پر ہو گا کہ دنیا میں جب تم سالم تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ بتاتا ہے کہ یہ حکم تکلیفی نہیں ہے۔ چونکہ غیر ممکن فعل پر حکم نہیں آتا اور آخرت یوم حساب ہے، یوم تکلیف نہیں ہے۔

خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ وَ قَدۡ کَانُوۡا یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی حالانکہ انہیں سجدے کے لیے اس وقت بھی بلایا جاتا تھا جب یہ لوگ سالم تھے۔

فَذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ یُّکَذِّبُ بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ ؕ سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ پس مجھے اس کلام کی تکذیب کرنے والوں سے نبٹنے دیں، ہم بتدریج انہیں گرفت میں لیں گے اس طرح کہ انہیں خبر ہی نہ ہو ۔

وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ ؕ اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا بہت مضبوط ہے۔

45۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا اہم حصہ ہے کہ فوری عذاب نازل نہیں فرماتا، بلکہ مجرموں کو ڈھیل دی جاتی ہے کہ اگر قابل ہدایت ہیں تو یہ ڈھیل ان کے لیے رحمت ہے، اگر قابل ہدایت نہیں ہیں تو یہ ڈھیل ان کے عذاب میں اضافے کا سبب ہے۔

اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ۚ۴۶﴾

۴۶۔ کیا آپ ان سے اجرت مانگتے ہیں جس کے تاوان تلے یہ لوگ دب جائیں ؟

46۔ نہ آپ ان پر کوئی مالی بوجھ ڈالتے ہیں، نہ ہی ان کے پاس کوئی غیبی حوالہ ہے جس پر تکیہ کر کے وہ اپنے لیے کوئی مؤقف بنا سکتے ہوں۔

اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھتے ہوں؟

فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ اِذۡ نَادٰی وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ ﴿ؕ۴۸﴾

۴۸۔ پس اپنے رب کے حکم تک صبر کریں اور مچھلی والے (یونس) کی طرح نہ ہو جائیں جنہوں نے غم سے نڈھال ہو کر (اپنے رب کو) پکارا تھا۔

48۔ یعنی حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر سے کام نہیں لیا تو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی نوبت آگئی۔

لَوۡ لَاۤ اَنۡ تَدٰرَکَہٗ نِعۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالۡعَرَآءِ وَ ہُوَ مَذۡمُوۡمٌ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اگر ان کے رب کی رحمت انہیں سنبھال نہ لیتی تو وہ برے حال میں چٹیل میدان میں پھینک دیے جاتے ۔

فَاجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ مگر اس کے رب نے اسے برگزیدہ فرمایا اور اسے صالحین میں شامل کر لیا۔

وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۵۱﴾

۵۱۔ اور کفار جب اس ذکر (قرآن) کو سنتے ہیں تو قریب ہے کہ اپنی نظروں سے آپ کے قدم اکھاڑ دیں اور کہتے ہیں: یہ دیوانہ ضرور ہے۔

51۔ اگر اللہ کی حمایت آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ مشرکین اپنی نظر بد سے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گزند پہنچانے کی کوشش کرتے۔ لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ نظر بد کے مؤثر ہونے پر روایت و درایت دونوں دلالت کرتی ہیں۔ چنانچہ مستدرک الوسائل 1: 421 اور صحیح بخاری باب الطب حدیث 5299 میں آیا ہے: الۡعَیۡنِ حَقٌّ یعنی چشم بد ایک حقیقت ہے نیز روایت ہے: لو سبق شیٔ القدر لسبقہ العین ۔ (موطا باب الرقیۃ۔ بحار الانوار 60: 26) اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاتی ہے، وہ چشم بد ہے۔

وَ مَا ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۵۲﴾ ۞ٙ

۵۲۔ اور حالانکہ یہ (قرآن) عالمین کے لیے فقط نصیحت ہے۔