آیت 48
 

فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ اِذۡ نَادٰی وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ ﴿ؕ۴۸﴾

۴۸۔ پس اپنے رب کے حکم تک صبر کریں اور مچھلی والے (یونس) کی طرح نہ ہو جائیں جنہوں نے غم سے نڈھال ہو کر (اپنے رب کو) پکارا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ جب ان مشرکین کے پاس مذکورہ باتوں میں سے ایک کا جواز بھی نہیں ہے، آپ کی تکذیب کا کوئی جواز نہیں ہے تو آپ صبرکریں اپنے رب کے حکم کی وجہ سے۔ بقولے لِحُکۡمِ میں لام، الی کے معنی میں ہے۔ یعنی اللہ کا حکم آنے تک صبر کریں۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ لام کو تعلیل سمجھیں یعنی فاصبر لسبب حکم ربک بالامھال کہ آپ کے رب نے مہلت دینے کا جو حکم دیا ہے اس کی وجہ سے صبر کریں۔

۲۔ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ: صاحب حوت ، مچھلی والے کی طرح بے صبری نہ کریں۔ یعنی حضرت یونس علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کے ایمان نہ لانے سے تنگ آ کر بے صبری کامظاہرہ نہ کریں یا اپنی قوم پر عذاب کے لیے عجلت سے کام نہ لیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایسی بے صبری سرزد ہو رہی تھی یا اپنی قوم کے خلاف بددعا کی تھی اور عذاب میں عجلت سے کام لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے:

اللّٰہم اھد قومی فانہم لا یعلمون۔ ( بحار الانوار ۱۱: ۲۹۸)

اے اللہ! میری قوم کو ہدایت فرما۔ یہ جانتے نہیں ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ عذاب کی درخواست نہیں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے:

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ۔۔۔ (۸ انفال ۳۳)

اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں۔

بلکہ مطلب یہ بتانا ہے کہ منکرین اور مکذبین کی طرف سے آپ کے لیے ایک صبر آزما ایذا ہے۔ صبر سے اس سخت مرحلے کو گزاریں۔ یونس نے بے صبری کی تو کیا نتیجہ ہوا، وہ بیان کرنا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ سے فرمایا:

وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۴﴾ (۶ انعام: ۱۴)

تم ہرگز مشرکین میں سے نہ ہونا۔

تو اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شرک کے نزدیک جانے والے تھے۔

۲۔ اِذۡ نَادٰی وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ: حضرت یونس علیہ السلام کی ندا کا ذکر سورہ انبیاء آیت ۸۷ میں آیا ہے:

فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۸۷﴾

چنانچہ وہ اندھیروں میں پکارنے لگے: تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں۔

۳۔ وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ: کظم سانس کی نالی کو کہتے ہیں۔ الکظوم سانس رکنے کے معنوں میں ہے۔ مَکۡظُوۡمٌ غم سے بھرے تھے یعنی حضرت یونس علیہ السلام غم سے نڈھال تھے۔


آیت 48