آیات 42 - 43
 

یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ جس دن مشکل ترین لمحہ آئے گا اور انہیں سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے۔

خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ وَ قَدۡ کَانُوۡا یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی حالانکہ انہیں سجدے کے لیے اس وقت بھی بلایا جاتا تھا جب یہ لوگ سالم تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ: جب کوئی ہنگامی حالت اور غیر معمولی سختی پیش آتی ہے تو لوگ اس سے نمٹنے کے لیے آمادگی کے طور پر کپڑے سمیٹ لیتے ہیں اور پنڈلی کھول لیتے ہیں۔ چنانچہ غیر معمولی حالت درپیش ہونے کی صورت میں کشف ساق ایک محاورہ ہے۔ لہٰذا اس کا ترجمہ ’’پنڈلی کی تجلی‘‘ کرنا اللہ کا جسم ہونے کا قائل ہونے کے مترادف ہے۔

وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ: قرینہ ہے کہ کشف ساق عدم سالمیت کا محاورہ ہے۔ جیسا کہ سعد بن خالد نے موت نزدیک آنے کی اضطرابی حالت میں یہی تعبیر اختیار کی:

کشفت لہم عن ساقھا

و بدا من الشر الصراح

وبدت عقاب الموت

یخفق تحتھا الاجل المتاح

جب جنگ شدت اختیار کر جائے تو کہا جاتا ہے: کشفت الحرب عن ساقھا وغیرہ۔ اس جگہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، نسائی کی ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

یکشف ربنا عن ساقہ فسجدلہ کل مومن و مومنۃ۔

ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن اور مومنہ اللہ کے لیے سجدہ کرے گا۔

دیگر روایت ہے جسے حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ قیامت کے دن مسلمانوں سے جب کہا جائے گا کہ تم اپنے رب کو کس چیز سے پہچانو گے تو وہ کہیں گے ایک علامت ہے اس سے۔ کہا جائے گا وہ کیا ہے؟

قالوا یکشف عن ساق فیکشف عند ذلک۔ ( روح المعانی )

کہیں گے وہ پنڈلی کھولے گا۔ چنانچہ اس وقت پنڈلی کھول لے گا۔

روایت کی صحت کا التزام کرنے والے اللہ کے جسم کے قائل ہونے کے نوبت تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر الساق موجود والکیف مجہول ، ’’اللہ کی پنڈلی ہے مگر اس پنڈلی کی حقیقت غیر معلوم ہے‘‘ کہ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں۔ البتہ اکثر اہل الرائے مفسرین نے کشف ساق سے مراد وہی لیا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔

۲۔ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ: قیامت کے دن سجدے کا حکم تکلیفی نہیں ہے بلکہ یہ حکم طعن و تشنیع کے طور پر ہو گا کہ دنیا میں جب تم سالم تھے سجدہ نہیں کرتے تھے۔ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ کا فقرہ بتاتا ہے کہ یہ حکم تکلیفی نہیں ہے چونکہ غیر ممکن فعل پر حکم نہیں آتا اور قیامت کا دن یوم حساب ہے، یوم تکلیف نہیں ہے۔


آیات 42 - 43