پنڈلی کھولنے سے مراد


یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ جس دن مشکل ترین لمحہ آئے گا اور انہیں سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے۔

42۔ یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ : جب کوئی ہنگامی حالت اور غیر معمولی سختی پیش آتی ہے تو لوگ اس سے نمٹنے کے لیے آمادگی کے طور پر کپڑے سمیٹ لیتے ہیں اور پنڈلی کھول لیتے ہیں۔ چنانچہ غیرمعمولی حالت درپیش ہونے کی صورت میں کشف ساق ایک محاورہ بن گیا ہے۔ لہٰذا اس کا ترجمہ پنڈلی کی تجلی سے کرنا، اللہ کا جسم ہونے کے قائل ہونے کے مترادف ہے۔ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ قرینہ ہے کہ کشف ساق عدم سالمیت کا محاورہ ہے۔ جیسا کہ سعد بن خالد نے موت نزدیک آنے کی اضطرابی حالت میں یہی تعبیر اختیار کی ہے:

کشفت لہم عن ساقھا

وبدا من الشر الصراح

و بدت عقاب الموت

یخفق تحتھا الاجل المتاح

صحیح بخاری تفسیر سورہ قلم میں آیا ہے: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا۔“ روایت کی صحت کا التزام کرنے والے اللہ کے تجسم تک جا پہنچتے ہیں۔ پھر الکیف مجہول اس پنڈلی کی حقیقت غیر معلوم کہ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ اللہ کی پنڈلی کا انسانوں کی پنڈلی کی طرح ہونا ضروری نہیں ہے۔

وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ : یہ حکم طعن و تشنیع کے طور پر ہو گا کہ دنیا میں جب تم سالم تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ بتاتا ہے کہ یہ حکم تکلیفی نہیں ہے۔ چونکہ غیر ممکن فعل پر حکم نہیں آتا اور آخرت یوم حساب ہے، یوم تکلیف نہیں ہے۔