آیت 44
 

فَذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ یُّکَذِّبُ بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ ؕ سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ پس مجھے اس کلام کی تکذیب کرنے والوں سے نبٹنے دیں، ہم بتدریج انہیں گرفت میں لیں گے اس طرح کہ انہیں خبر ہی نہ ہو ۔

تفسیر آیات

کفار و مشرکین کے لیے انتہائی دھمکی ہے۔ اے رسول! آپ ان مشرکین کے بارے میں کسی قسم کی سفارش نہ کریں، نہ آپ ان سے الجھیں۔ یہ میرے دشمن ہیں۔ میں خود ان مشرکین سے نمٹ لوں گا۔ قادر جبار کے مقابلے میں ان مکھیوں کی کیا وقعت ہے۔

اس فقرے میں جہاں مشرکین کی تباہی کی خبر ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے نوید فتح ہے۔

۲۔ سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ: ہم بتدریج انہیں گرفت میں لیں گے۔ سرکشی اور طغیانی کے باوجود نعمتوں کی فراوانی کو نادان لوگ خوش قسمتی سمجھتے ہیں جب کہ یہ فراوانی اللہ کی طرف سے گرفت کی شدید ترین نوعیت ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اذا احدث العبد ذنبا جدد لہ نعمۃ فیدع الاستغفار فھو الاستدراج۔ (بحار الانوار ۵: ۲۱۵)

جب بندہ کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور اس کے لیے نئی نعمت فراہم ہوتی رہے اور استغفار ترک کرے تو یہ بتدریج گرفت کی علامت ہے۔


آیت 44