اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا یَقُوۡلُوۡنَ لِاِخۡوَانِہِمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَئِنۡ اُخۡرِجۡتُمۡ لَنَخۡرُجَنَّ مَعَکُمۡ وَ لَا نُطِیۡعُ فِیۡکُمۡ اَحَدًا اَبَدًا ۙ وَّ اِنۡ قُوۡتِلۡتُمۡ لَنَنۡصُرَنَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ کیا آپ نے ان منافقین کو نہیں دیکھا جو اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں: اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ضرور نکل جائیں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات ہرگز نہیں مانیں گے اور اگر تمہارے خلاف جنگ کی جائے تو ہم ضرور بالضرور تمہاری مدد کریں گے لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ قطعاً جھوٹے ہیں۔

11۔ منافقین کی سازشوں اور وعدوں کا ذکر ہے جو انہوں نے یہودیوں کے ساتھ کیے اور کہا: جنگ کی صورت میں تمہارے ساتھ ہم بھی مسلمانوں کے ساتھ لڑیں گے اور جلا وطنی کی صورت میں ہم بھی تمہارے ساتھ جلا وطنی اختیار کریں گے۔

لَئِنۡ اُخۡرِجُوۡا لَا یَخۡرُجُوۡنَ مَعَہُمۡ ۚ وَ لَئِنۡ قُوۡتِلُوۡا لَا یَنۡصُرُوۡنَہُمۡ ۚ وَ لَئِنۡ نَّصَرُوۡہُمۡ لَیُوَلُّنَّ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے اور اگر یہ ان کی مدد کے لیے آ بھی جائیں تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔

12۔ یہی قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ اس پیشگوئی کے عین مطابق مدینہ کے منافقین نے جو ایک بڑی تعداد میں تھے، یہودیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ یہودی محاصرے میں رہے۔ منافقین نے ان کی کوئی کمک نہ کی۔ یہودی جلا وطن ہوئے، منافقین نے جلا وطنی بھی اختیار نہیں کی۔

لَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ رَہۡبَۃً فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ تمہاری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے، یہ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔

13۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت زیادہ بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کو اصولاً اللہ کا خوف کر کے مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہیے تھا۔ یہ ان کی ناسمجھی ہے جس سے ہمیشہ کی زندگی مربوط ہے۔ پس اس سے نہیں ڈرتے اور صرف دنیا کی چند روزہ زندگی سے مربوط باتوں سے خوف کھاتے ہیں۔

لَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ جَمِیۡعًا اِلَّا فِیۡ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوۡ مِنۡ وَّرَآءِ جُدُرٍ ؕ بَاۡسُہُمۡ بَیۡنَہُمۡ شَدِیۡدٌ ؕ تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿ۚ۱۴﴾

۱۴۔ یہ سب مل کر تم سے نہیں لڑیں گے مگر قلعہ بند بستیوں یا دیواروں کی آڑ میں سے، ان کی آپس کی لڑائی بھی شدید ہے، آپ انہیں متحد سمجھتے ہیں لیکن ان کے دل منتشر ہیں، یہ اس لیے ہے کہ وہ عقل سے کام لینے والے نہیں ہیں۔

14۔ بعد میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی، منافقین اور یہودیوں نے مل کر مسلمانوں سے لڑائی نہیں کی، یہودی صرف قلعہ بند ہو کر رہ گئے۔

کَمَثَلِ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ قَرِیۡبًا ذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿ۚ۱۵﴾

۱۵۔ ان لوگوں کی طرح جنہوں نے ان سے کچھ ہی مدت پہلے اپنے عمل کا وبال چکھ لیا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

15۔ بنی نضیر سے پہلے ایک اور یہودی قبیلہ بنی قینقاع نے پسپائی اختیار کی تھی۔ ممکن ہے یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہو۔

کَمَثَلِ الشَّیۡطٰنِ اِذۡ قَالَ لِلۡاِنۡسَانِ اکۡفُرۡ ۚ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ شیطان کی طرح جب اس نے انسان سے کہا: کافر ہو جا! پھر جب وہ کافر ہو گیا تو کہنے لگا: میں تجھ سے بیزار ہوں، میں تو عالمین کے رب اللہ سے ڈرتا ہوں۔

16۔ منافقین اور اہل کتاب کی مثال شیطان کی طرح رہی ہے جو کفر کرنے پر اکساتا ہے اور کفر اختیار کرنے کے بعد اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔ منافقین نے بھی ایسے ہی کیا۔ مسلمانوں کے ساتھ مقابلے پر اکسایا اور بعد میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔

فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَاۤ اَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیۡنِ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ﴿٪۱۷﴾

۱۷۔ پھر ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ وہ دونوں جہنمی ہو گئے جس میں (وہ) ہمیشہ رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (روز قیامت) کے لیے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ یقینا اس سے خوب باخبر ہے۔

18۔ اپنے اعمال کا محاسبہ تقویٰ کے بعد کا مرحلہ ہے، جس میں متقین کو قیامت کے لیے ہمیشہ مستعد اور بیدار رہنے کا حکم ہے کہ اپنے اعمال کا معائنہ کریں کہ قیامت کے دن تو ہر صورت معائنہ کرنا ہے۔ متقی کو چاہیے کہ وہ آج ہی اپنے اعمال کا معائنہ کرے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اپنے اعمال کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہو۔

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود فراموشی میں مبتلا کر دیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔

19۔ جو لوگ اللہ کو بھول جاتے ہیں ان کے دل اور ان کا وجدان مردہ ہو جاتا ہے اور مردہ دل اپنا نفع و نقصان سمجھنے سے بھی قاصر ہوتا ہے۔ لہٰذا خدا فراموشی کا نتیجہ خود فراموشی نکلتا ہے۔

لَا یَسۡتَوِیۡۤ اَصۡحٰبُ النَّارِ وَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ؕ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اہل جہنم اور اہل جنت برابر نہیں ہو سکتے، اہل جنت ہی کامیاب ہیں۔

20۔ اس آیت کا مطلب بظاہر واضح معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ آیہ ایک حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے کہ دنیا والے اپنے مادی پیمانے کے مطابق مومن اور فاسق کو ایک جیسا سمجھتے ہیں، بلکہ احیاناً فاسقین، مومنین پر اپنی برتری جتاتے ہیں، حالانکہ وہ فی الواقع مذلت و خواری کی ایک کھائی کی طرف جا رہے ہوتے ہیں اور اہل تقویٰ اپنے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ہمیشہ کی کامیابی کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔