آیت 11
 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا یَقُوۡلُوۡنَ لِاِخۡوَانِہِمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَئِنۡ اُخۡرِجۡتُمۡ لَنَخۡرُجَنَّ مَعَکُمۡ وَ لَا نُطِیۡعُ فِیۡکُمۡ اَحَدًا اَبَدًا ۙ وَّ اِنۡ قُوۡتِلۡتُمۡ لَنَنۡصُرَنَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ کیا آپ نے ان منافقین کو نہیں دیکھا جو اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں: اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ضرور نکل جائیں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات ہرگز نہیں مانیں گے اور اگر تمہارے خلاف جنگ کی جائے تو ہم ضرور بالضرور تمہاری مدد کریں گے لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ قطعاً جھوٹے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا: ان دنوں یہ آیت نازل ہوئی جب بنی نضیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس دن کا نوٹس دیا کہ شہر چھوڑ کر یہاں سے چلے جائیں اور مدینہ کے منافقین کے لیڈروں نے یہودیوں کو یہ پیغام بھیجا کہ ہم دو ہزار آدمی تمہاری مدد کو آئیں گے۔ لڑنا پڑا تمہارے ہمراہ لڑیں گے۔ نکلنا پڑا تو تمہارے ساتھ گھر بار چھوڑ کر نکل جائیں گے ۔

ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ آیت پہلے نازل ہوئی ہو گی اور نبی نضیر کی جلا وطنی کے بارے میں آیت بعد میں لیکن یہودیوں کا مدینہ سے اخراج اہم ترین واقعہ تھا اس لیے اس کا ذکر پہلے ہو گیا۔

۲۔ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ: یہ پیشینگوئی ہے کہ منافقین کی طبیعت میں نفاق رچا بسا ہے۔ وہ یہودیوں کے ساتھ بھی منافقت کرتے ہیں اور جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔


آیت 11